عموریہ کے محاصرہ کے دوران ایک شخص دیوار پرکھڑا ہو کر نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تھا‘ مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر تکلیف کی بات اور کیا ہو سکتی تھی‘ ہر مجاہد کی خواہش تھی کہ اس منحوس کے ہلاک کرنے کی سعادت اس کے حصے میں آئے لیکن وہ تیروں اور حملوں کی زد سے محفوظ ایسی جگہ کھڑا ہوتا جہاں سے اس کی آواز تو سنائی دیتی تھی‘
لیکن اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی۔ یعقوب بن جعفر نامی ایک شخص لشکر اسلام میں ایک بہترین تیرانداز تھا‘ اس ملعون نے جب ایک بار دیوار پر چڑھ کر شانِ رسالت میں گستاخی کیلئے منہ کھولا‘ یعقوب گھات میں تھا‘ تیر پھینکا جو سیدھا جا کر اس کے سینے سے پار ہوا‘ وہ گر کر ہلاک ہوا تو فضاء نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی‘ یہ مسلمانوں کیلئے بڑی خوشی کا واقعہ تھا‘ معتصم نے اس تیر انداز مجاہد کو بلایا او رکہا ’’آپ اپنے اس تیر کا ثواب مجھے فروخت کر دیجئے۔مجاہد نے کہا ’ثواب بیچا نہیں جاتا‘ کہا! میں آپ کو ترغیب دیتا ہوں اور ایک لاکھ درہم اسے دیئے‘ مجاہد نے انکار کیا‘ خلیفہ نے پانچ لاکھ درہم اسے دیئے‘ تب وہ جانباز مجاہد کہنے لگا:’’مجھے ساری دنیا دیدی جائے تو بھی اس کے عوض اس تیر کا ثواب فروخت نہیں کروں گا‘ البتہ اس کا آدھا ثواب بغیر کسی عوض کے میں آپ کو ہبہ کر دیتا ہوں‘‘۔معتصم اس قدر خوش ہوا گویا اسے ایک جہاں مل گیا ہو‘ معتصم نے پھر پوچھا ’’آپ نے تیر اندازی کہاں سیکھی ہے؟ فرمایا ’’بصرہ میں واقع اپنے گھر میں‘‘ معتصم نے کہا وہ گھر مجھے فروخت کر دیں‘ کہنے لگا وہ رمی اور تیر اندازی سیکھنے والے مجاہدین کیلئے وقف ہے (اس لئے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا) معتصم نے اس جانباز مجاہد کو ایک لاکھ درہم انعام میں دیئے۔