ابو عمرو بن نجید چوتھی صدی ہجری کے مشہور بزرگوں میں سے ہیں‘ ایک مرتبہ سرحدات کی حفاظت کیلئے رقم ختم ہو گئی‘ امیر شہر نے اہل خیر حضرات کو ترغیب دی اور سرمجلس رو پڑے‘ ابو عمرو بن نجید نے دو لاکھ درہم کی خطیر رقم رات کے وقت آ کر انہیں دیدی‘ امیر نے اگلے دن لوگوں کو جمع کیا‘ تعاون کرنے والے ابوعمرو کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے مسلمانوں کی بروقت بڑی امداد کی‘
لوگوں کی حیرت کی انتہاء نہ رہی‘ جب ابو عمرو اسی مجلس میں کھڑے ہو کر فرمانے لگے ’’وہ رقم میری والدہ کی تھی‘ میں نے دیتے وقت ان سے پوچھا نہیں تھا‘ جب کہ وہ راضی نہیں ہیں لہٰذا یہ رقم واپس کر دی جائے‘‘ امیر نے واپس آ کر دی‘ اگلی رات ابوعمر دوبارہ وہ رقم لے کر حاضر ہوئے اور کہا کہ ’’یہ رقم لے لیں لیکن اس شرط کہ آپ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ کس نے دی ہے‘‘۔ امیر کی آنکھیں اشک بار ہوئیں‘ کہا ’’ابو عمرو! تم اخلاص کی کس قدر بلندی پر ہو‘‘؟