فتح مدائن کے معرکہ میں ایک نقاب پوش سپاہی کے ہاتھ قیمتی جواہرات سے مرصع کسری کا تاج زریں آیا تو وہ اس کو اپنے دامن میں چھپا کر امیر افواج اسلامی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس لا کر عرض کرنے لگا ’’اے امیر! یہ کوئی بہت قیمتی چیز معلوم ہوتی ہے‘ یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں تاکہ بیت المال میں داخل ہو جائے‘ مسلمان امیر‘ دریائے حیرت میں ڈوب گئے‘ پوچھا کہ آپ کا نام؟
اس نے دروازہ کی طرف منہ کر کے اور امیر کی طرف پیٹھ کر کے کہا ’’جس کیلئے میں نے یہ کام کیا ہے وہ میرا نام جانتا ہے‘‘ یہ کہہ کر روانہ ہو گیا۔ جب اموی سردار مسلمہ بن عبدالملک کو ایک قلعہ کا محاصرہ کئے کافی عرصہ گزر گیا اور کامیابی کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو اس نے قلعہ پر دھاوا بولنے کے لئے چند جانبازوں کا انتخاب کیا‘ پھر لوگوں نے دیکھا کہ ایک جوان تیروں کی بارش اور دشمن کی صفوں سے آگ کے برستے شعلوں میں جان ہتھیلی پر رکھے دیوانہ وار قلعہ کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے اور بالآخر قلعے کی دیوار کے پاس پہنچ کر نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا‘ اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا اور قلعہ فتح ہو گیا۔ اب ہر نگاہ اس سرفروش مجاہد کو تلاش کر رہی تھی جس کے سر اس فتح و کامرانی کا سہرا تھا مگر کوئی اسے پہچانتا نہ تھا۔ مسلمہ کے سوال پر سب نے نفی میں سر ہلایا۔ اس نے پورے لشکر کو جمع کیا اور کہا ’’نقب لگانے والا جانباز کہاں ہے؟‘‘پورے لشکر پر سناٹا طاری ہو گیا لیکن کوئی نہ آیا‘ مسلمہ بن عبدالملک نے دوبارہ کہا ’’میں اس کو اس کے رب کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ سامنے آ جائے‘‘ اچانک ایک نقاب پوش آگے بڑھا جس کی صرف آنکھیں ظاہر تھیں‘ مسلمہ کے سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا:میں ہوں نقب لگانے والا‘ اگر آپ مجھے میرے رب کی قسم نہ دیتے تو میں کبھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کرتا‘
اب میں بھی آپ کو آپ کے رب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھ سے میرے نام کے بارے میں سوال نہ کرنا اور اگر آپ جان بھی لیں تو کسی سے ذکر نہ کرنا اس لئے کہ میں نے یہ عمل اس ذات کیلئے کیا ہے جو مجھے آپ سے زیادہ عطاء کرنے پر قادر ہے‘‘۔مسلمہ بعد میں جب دعا کرتے تو کہتے ’’اے اللہ! مجھے نقب والے مجاہد کے ساتھ کر دیجئے‘‘۔ قتیبہ بن مسلم کے لشکر میں ابن وال نامی ایک شخص غنائم کی جمع و تقسیم کی خدمت پر مامور تھا۔
ایک مرتبہ لشکر کے امراء میں سے کسی امیر نے اس سے کہا کہ میں اپنا ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجوں گا تاکہ وہ غنائم میں سے میری جماعت کا حصہ وصول کر سکے‘ ابن وال قاصد کے انتظار میں رہا مگر وہ نہ پہنچا‘ اسی دوران ایک سپاہی وہاں سے گزرا تو ابن وال نے قاصد سمجھ کر اسے بلایا اور دراہم کی تھیلی سپرد کر کے کہا ’’یہ لے جاؤ‘‘ دوسرے دن امیر آیا‘ اس نے اپنی جماعت کا حصہ طلب کیا تو ابن وال نے کہا ’’وہ تو میں آپ کے قاصد کے حوالے کر چکا ہوں‘‘ امیر نے کہا ’’میں نے تو کسی کو نہیں بھیجا‘‘ دونوں میں اختلاف ہو گیا۔ سپاہی کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا جو بدستور پہلی حالت میں تھی اور اس میں پانچ لاکھ درہم تھے۔