منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

باسل زاروف ،وہ شخص جو ہمارے کسی نہ کسی عزیز کی موت کا یقیناً ذمہ دار ہے

datetime 16  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

باسل زاروف۔۔۔ یہ بے حد امیر اور پراسرار شخص ان لوگوں میں سے ایک تھا۔ جنہیں ساری دنیا نفرت اور حقارت کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ آج سے کئی سال پہلے اس کے سر کے لیے بیس ہزار پونڈ انعام رکھا گیاتھا۔ اس کے متعلق بیسیوں کتابیں لکھی گئی ہیں وہ بین الاقوامی شک و شبہات اور قومی نفرت کا حیرت انگیز مجسمہ تھا۔باسل زاروف نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور بعد میں بہت بڑا رئیس بن گیا۔

اس نے یہ دولت مشین گنیں، چھوٹی توپیں اور دوسرا اسلحہ بارود بیچ کرکمائی تھی۔ اس کی ایک داستان حیات کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ ’’لاکھوں انسانوں کی قبریں اس کی یادگار ہیں۔‘‘ اور مرنے سے پہلے ان کی الم ناک چیخیں اس کا مرثیہ۔اٹھائیس برس کی عمر میں باسل زاروف کو ایک کام مل گیا۔ وہ ہفتے میں ایک بار پانچ پونڈ کے معاوضے پر اسلحہ بارود بیچا کرتاتھا۔ کمیشن اس اجرت کے علاوہ تھی، ان دنوں وہ یونان میں تھا اوراچھی طرح جانتا تھا کہ اسلحہ بارود بیچنے کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ اس کی مانگ پیدا کی جائے۔ چنانچہ اس نے یونانیوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کیا اورانہیں یہ باور کرا دیا کہ وہ ایسے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ جو ان کے دلوں کے پیاسے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اسلحہ خریدنا چاہیے۔یہ آج سے کوئی پچاس برس پہلے کا واقعہ ہے کہ پورے ملک میں خوف کی لہر دوڑ گئی، فوجی بینڈ بجنے لگے، پرچم لہرانے لگے، مقرروں نے لوگوں کے سامنے شعلہ افشاں تقریریں کیں اور یونان نے اپنے کی تعداد میں اضافہ کرکے باسل زاروف سے اسلحہ خریدا اور ایک آبدوز کشتی بھی۔ یہ سب سے پہلی آبدوز کشتی تھی۔۔۔اس سودے سے دولت کمانے کے بعد زاروف ترکوں کے پاس گیا اور انہیں کہنے لگا کہ ذرا دیکھیے تو یونانیوں نے کیا اودھم مچا رکھی ہے۔ وہ تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی فکر میں ہیں۔

چنانچہ ترکوں نے دو آبدوزیں خرید لیں۔ دونوں ملکوں نے دھڑادھڑ اسلحہ خریدنا شروع کر دیااور زاروف نے اسی کشمکش میں 60,000,000 پونڈ ہتھیا لیے۔پورے پچاس برس تک زاروف دونوں قوموں کے شک و شبہات کو ہوا دے کر ان کا خون چوستا رہا۔ دونوں کے درمیان دشمنی کی خلیج وسیع کرتا رہا اور لڑائی کے خطرے کو قریب لانے کی ہرممکن کوشش کرتا رہا۔

جب روس اور جاپان کے درمیان چپقلش شروع ہوئی تو اس نے دونوں ملکوں کے ہاتھوں اسلحہ فروخت کیا سپین اور امریکہ کی جنگ میں اس نے وہ بارود بیچا، جس سے امریکی سپاہیوں کو موت کا نشانہ بنایاگیا۔پہلی عالمی جنگ میں اس نے جرمنی، انگلستان، فرانس اور اٹلی کی فیکٹریوں میں جنگی سامان ذخیرہ کر رکھا تھا۔ اس طرح اس نے اتنی دولت کمائی کہ جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

پچاس برس تک وہ بھیگی بلی بن کر یورپ کے جنگی دفتروں کا طواف کرتا رہا۔ اس کی تمام نقل و حرکت انتہائی رازدارانہ تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس نے دو ایسے شخص ملازم رکھے تھے کہ ان کا حلیہ بالکل اس جیساتھا۔ ان کے ذمے ایک ہی کام تھا کہ وہ لوگوں کو اپنی شکل دکھاتے رہیں تاکہ جس وقت وہ کسی اور ملک میں اپنے رازدارانہ مشن پر ہو۔ اخبارات میں یہ غلط خبریں چھپ سکیں کہ اس وقت وہ برلن یا فانٹی کارلو میں ہے۔

اس نے کبھی اپنی خوشی سے تصویر نہ کھنچوائی۔ اس نے کبھی خوشی سے انٹرویو نہ دیا۔ کبھی کسی کی دفاع یا تائید میں کچھ نہیں کہا، کبھی کسی بات کی وضاحت نہیں کی اور کبھی کسی ناگوار سے ناگوار سوال کا جواب نہیں دیا۔چھبیس سال کی عمر میں جب وہ دراز قد اور دل کش تھا تو ایک سترہ برس کی دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔اس لڑکی سے اس کی ملاقات ایتھنز سے پیرس جاتے ہوئے ریل گاڑی میں ہوئی۔

وہ چاہتا تھا کہ فوراً اس لڑکی سے شادی کرلے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ پہلے ہی شادی شدہ تھی اور اس کا شوہر سپین کا ایک رئیس تھا جو حواس باختہ ہونے کے علاوہ عمر میں اس کے باپ کے برابر تھا۔ لڑکی کے مذہبی اعتقادات کے مطابق طلاق ممکن نہ تھی چنانچہ زاروف نے اس کا انتظار کیا اور پچاس سال تک جدائی کی آگ میں جلتا رہا۔ آخر 1923ء میں اس لڑکی کے خاوند کا انتقال ہوا اور 1942ء میں اس نے زاروف سے شادی کر لی۔

اس وقت وہ پینسٹھ سال کی تھی اور زاروف کی عمر ستر برس کی تھی دو سال بعد وہ مر گئی وہ اڑتالیس برس اس کی محبوبہ رہی اور صرف اٹھارہ مہینے اس کی بیوی رہی۔ اپنی موت تک زاروف گرمیاں پیرس کے قریب ایک خوب صورت علاقے میں گزارتاتھا لیکن اس کی پیدائش ترکی کے ایک دور دراز گاؤں میں ایک خستہ حال جھونپڑی میں ہوئی تھی۔ جس میں نہ تو کوئی دروازہ تھا اور نہ کھڑکی۔ بچپن میں وہ گندے فرش پر سوتا تھا اور چیتھڑے پہنتا تھا۔

جب وہ پہلی بار لندن آیا تو اس کا حلیہ دیکھ کر لوگ سمجھتے تھے کہ وہ کوئی چور ہے۔ لیکن تیس برس بعد اسی شہر میں اسے شاہ انگلستان کی طرف سے نائٹ کا خطاب ملا تھا۔ 1909ء کی ایک شام کو یہ پراسرار شخص پیرس کے مشہور چڑیا گھر میں بندر بھوکے تھے اور یہاں کا مشہور شیر شدید بیمار تھا ایسا محسوس ہوتاتھاکہ پورا چڑیا گھر تباہ ہو جائے گا۔چنانچہ زاروف نے منیجر کو بلایااور خوب ڈانٹ ڈپٹ کی منیجر کو یہ علم نہ تھا کہ وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے کسی ایک سے مخاطب ہے۔

چنانچہ اس نے کسی قدر طنز سے جواب دیاکہ اس کے پاس جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے پانچ لاکھ فرینک بھی نہیں۔ اس پر زاروف نے کہا یہ لو۔۔۔اگر تمہیں یہی سب کچھ چاہیے تو یہ لو۔۔۔ اور جس شخص کی گولیاں لاکھوں انسانوں کے سینوں کو چھلنی کر چکی تھیں۔ اس نے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے 20,000 پونڈ کاچیک لکھ دیا۔ منیجر جو دستخط نہ پہچان سکاتھا۔ یہ سمجھا کہ اجنبی اسے بے وقوف بنا رہاہے۔

اس نے یہ چیک عام کاغذوں میں پھینک دیا اور اس واقعہ کو بھول گیا۔ کئی مہینوں بعد جب اس نے یہ چیک اپنے ایک دوست کودکھایا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ چیک اصلی تھا اور اس پر ایسے شخص کے دستخط تھے جس سے زیادہ فرانس میں کوئی امیر نہیں تھا۔زاروف کا انتقال پچاس برس کی عمر میں ہوا۔اس وقت وہ تن تنہا، معذور اور بیماری سے لاچار ہو چکا تھا، ایک ملازم اسے پہیوں والی گاڑی پر بٹھا کر ادھر ادھر لے جاتا تھا اور اب اسے صرف اپنے گلاب کے پھولوں کے باغ سے دل چسپی باقی رہ گئی تھی۔ اس نے پورے پچاس سال باقاعدگی سے ڈائری لکھی تھی۔ یہ 53 جلدوں پر مشتمل تھی اور کہتے ہیں کہ اس نے موت سے پہلے یہ سارا ریکارڈ تلف کرا دیا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…