یونان میں ایک شخص سولن گزرا ہے۔ یہ ایک مانا ہوا فلسفی اور شاعر تھا۔ ایک بار قبرص کے بادشاہ “کریس” نے سولن کو اپنے ملک میں مدعو کیا۔ ملاقات کے دن بادشاہ اپنے بیش قیمت لباس اور ہیرے جواہر زیب تن کر کرے تخت پر جلوہ افروز ہوا اور پورے شاہانہ طریق سے سولن کا انتظار کرنے لگا۔ سولن آیا اور اطمینان و بے نیازی سے بادشاہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے بادشاہ کے جاہ و جلال پر کوئی توجہ نہ دی۔
بادشاہ نے بے چین ہوگیا۔ اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ سولن کو ہمارے خزانے دکھائے جائیں۔ وزیر نے سولن کے سامنے سونے، چاندی اور لعل و زمرد کے ڈھیر لگوا دیئے۔ یہ چمک دمک بھی سولن کو متاثر نہ کرسکی اور وہ بے پرواہ بیٹھا رہا۔ بادشاہ سے رہا نہ گیا۔ اس نے بلندآواز سے سولن کو مخاطب کیا۔”سولن تم یونان کے نامور فلسفی ہو’ بتاؤ تمہارے نزدیک دنیا کا سب سے خوش نصیب آدمی کون ہے؟”سولن نے پر وقار لہجے میں کہا۔ “بادشاہ میرے ملک میں ایک یلس نامی ایک آدمی بہت خوش نصیب تھا۔ وہ بہادر، نیک، اور اچھے بچوں کا باپ تھا۔ اس نے اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دے دی۔”اس کے بعد دوسرا سب سے خوش نصیب انسان کون ہے؟؟ بادشاہ نے سوال کیا،سولن نے جواب دیا۔”دو بھائی سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں انہوں نے اپنی ماں کی خدمت کرتےکرتے جان دی”بادشاہ آگ بگولا ہو گیا اور کہا” کیا تم ہمیں خوش نصیب نہیں سمجھتے؟”سولن بولا”خوش نصیب وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ خوش نصیبی زندگی کے آخری لمحے تک رہے۔ جس کی زندگی ابھی ختم نہ ہوئی ہو اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ انسان کی زندگی ہمیشہ ایک حالت پر برقرار نہیں رہتی”۔بادشاہ مشتعل ہو گیا اور اس نے سولن کے ساتھ انتہائی نفرت اور حقارت کا سلوک کیا۔کچھ عرصہ بعد شہنشاہ سائرس نے قبرص فتح کر لیا اور بادشاہ کریس کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔ کریس کو جلانے کےلئے لکڑیوں پر بٹھا دیاگیا۔
اس کے منہ سے درد ناک چیخ نکلی “ہائے سولن”۔فاتح شہنشاہ نے ہاتھ اٹھا کر اچانک کاروائی رکوا دی اور قریب جا کر سوال کیا”ہائے سولن سے تمہاری کیا مراد ہے؟”کریس نے پورا واقعہ سنا دیا۔ فاتح یہ واقعہ سن کر مغلوب ہو گیا۔ اس نے کریس کی جان بخش دی اور اس کے ساتھ عزت و تکریم سے پیش آیا۔