ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں جو سب سے زیادہ عجیب و غریب عورت دیکھی ہے۔ اسے کوئی ایک ہزار سے زیادہ مردوں نے شادی کے پیغامات دیے تھے۔ ان میں امیر، غریب، معروف، غیر معروف سبھی قسم کے مرد شامل تھے۔ لیکن اس نے کسی کی پیشکش قبول نہ کی۔ یورپ کے ایک نامور شاہی خاندان کا ایک شہزادہ مہینوں اس کے پیچھے مارا مارا پھرتا رہا لیکن اس نے اس شہزادے کادست سوال بھی جھٹک دیا۔
اور شادی کرنے پر رضا مند نہ ہوئی اور سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ چالیس برس کی عمر میں بھی اسے شادی کی درخواستوں والے اتنے خطوط آتے تھے کہ اس کے سیکرٹری نے کبھی اسے یہ خطوط دکھانے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔اس کا نام ایونجلین بوتھ تھا، وہ ایک شاندار فوج کی سربراہ تھی، وہ فوج جس نے بڑے بڑے دشمنوں کے چھکے چھڑا دیے تھے، یعنی مکتی فوج۔۔۔ اس فوج کے کوئی تیس ہزار افسر دور دراز کے چھیاسی ملکوں میں بھوکوں کو کھانا کھلاتے اور اسی (80) مختلف زبانوں میں محبت کا پرچار کرتے تھے۔جب ایونجلین بوتھ سے میں ملاتو مجھے بہت حیرت ہوئی یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ اتنی عمررسیدہ ہے کہ دادی اماں کہلا سکتی ہے لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس عمرمیں بھی اس کے خوب صورت سرخ باتوں میں کوئی کوئی سفید بال تھا۔ اس کاچہرہ جوش و خروش سے تمتما رہا تھا اور وہ بہت چست و چوبند دکھائی دے رہی تھی۔ آپ پوچھیں گے چالیس برس کی عمر میں چہرے کی تر و تازگی اور بدن کی پھرتی، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ میراجواب یہ ہے کہ اگر آپ نے کبھی اس عورت کو وحشی گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے دیکھا ہوتا، جو دو آدمیوں کے قابو میں نہیں آتا تھا تو آپ سچ مچ یہ یقین کر لیتے کہ چالیس برس تو کیا زندگی کا آغاز ہی ستر برس کی عمر سے ہوتا ہے۔
اس گھوڑے کا نام ’’سنہری قلب تھا۔‘‘ اور جب وہ ’’سنہری قلب پر سوار ہو کرچلائی، چلو، ‘‘سنہری قلب زور سے اچھلا اور ادھر ادھر بدکنے لگا۔ آخر کار اس کی جرأت مندی نے گھوڑے کو زیر کر لیا۔ اس کے بعد وہ روزانہ ایک گھنٹے تک گھڑ ساری کرتی۔۔۔ اوربعض اوقات تو وہ ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگامیں پکڑ کر دوسرے ہاتھ میں مسودہ پکڑ کر تقریر کی تیاری کرتی اور ساتھ ساتھ گھڑ سواری سے بھی لطف اندوز ہوتی۔
رات کو کاغذ کا ایک دستہ ہمیشہ اس کی چارپائی کے پاس پڑی ہوئی میز پر ہوتا۔ عام طور پر آدھی رات کو بیدار ہوتی اور نوٹس تیار کرتی۔ ایک رات جب وہ نیند سے بیدار ہوئی۔ اس وقت رات کے تین بجے تھے۔ ایک گیت کے بول اوردھن تیار کرنے لگی۔ اس نے اپنے گھر میں تین سیکرٹری ملازم رکھے ہوئے تھے اور بعض اوقات وہ ان میں سے کسی ایک کو رات کے دو بجے جگالیتی اورباقاعدہ کام شروع کر دیتی۔
گھر سے دفتر تک موٹر میں جاتے ہوئے اسے پورا ایک گھنٹہ لگتا، سارا راستہ وہ سیکرٹری کو چٹھیاں لکھاتی جاتی۔ ایونجلین بوتھ نے مجھے بتایا کہ اس کی زندگی کا سب سے دل دہلا دینے والا واقعہ اس وقت پیش آیا۔ جب لوگ سونے کی تلاش میں یوکون بھاگے جا رہے تھے۔ شاید آپ کو یاد ہو گا کہ جب الاسکا میں سونا دریافت ہواتھا، تو پوری امریکن قوم کے جذبات قابو سے باہرتھے۔
لوگوں کے جتھے کے جتھے سونے کی تلاش میں شمال کی طرف جانے لگے اور اس موقع پرایونجلین بوتھ نے فوراًمحسوس کیا کہ اب اس جگہ مکتی فوج کی ضرورت پیش آئے گی، چنانچہ وہ دو تین تربیت یافتہ نرسوں اور دو چار اسسٹنٹوں کے ہمراہ یوکون روانہ ہوگئی۔ سکاگ وے پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ مہنگائی اتنے عروج پر تھی کہ انڈے کی قیمت ایک شلنگ تھی اور مکھن بارہ شلنگ چھ پنس فی پونڈ کے حساب سے فروخت ہو رہا تھا
بعض لوگ پیٹ سے بھوکے تھے لیکن ان کے پاس بندوقیں ضرور تھیں اور ہر جگہ اس نے لوگوں کو ’’سوپی سمتھ‘‘ کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے سنا تھا۔ ’’سوپی‘‘ جوکلونڈ کی قاتل تھا۔ سوپی سمتھ اور اس کے لٹیرے ساتھی اس انتظار میں تھے کہ کب سونے کی کانوں سے لوگ باہر آئیں اور وہ انہیں قتل کرکے ان کی دولت ہڑپ کر لیں۔ امریکی حکومت نے اسے مارنے کے لیے ایک دستہ بھیجا لیکن سوپی سمتھ نے اس دستے کے تمام ارکان کوہلاک کر دیا۔
سکاگ وے ایک خطرناک جگہ تھی۔ جس روز ایونجلین بوتھ وہاں پہنچی، صرف اسی روز وہاں پانچ قتل ہوئے تھے۔ اسی رات اس نے دریائے یوکون کے کنارے ایک جلسہ کیا اور بیس ہزار آدمیوں کے سامنے اتنی موثر تقریر کی کہ وہ سب کے سب وہ مذہبی گیت گانے لگے جو انہوں نے کبھی اپنی ماؤں سے سنے تھے۔ ’’یسوع مسیح میرے روحانی محبوب میرا اللہ تمہارے قریب ہے اور ہمارا گھر پیارا گھر ہے۔‘‘ رات بہت خنک تھی،
چنانچہ جب وہ گا رہی تھی تو کسی شخص نے چپکے سے اس کے کندھوں پر کمبل ڈال دیا، یہ نذرانہ عقیدت تھا۔ لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم رات ایک بجے تک یہی گیت گاتا رہا۔ اس کے بعد ایونجلین بوتھ اور اس کے ساتھی تھک ہار کر سونے کے لیے قریبی جنگل میں چلے گئے۔ جنگل میں انہوں نے چائے بنانے کے لیے آگ سلگائی، اور تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ پانچ مسلح آدمی ان کی طرف آ رہے ہیں۔
جب وہ قریب پہنچے تو ان کے سردار نے سر سے ہیٹ اتار کر کہا، میرا نام سوپی سمتھ ہے اور میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ میں آپ کے گیتوں سے بہت محظوظ ہواہوں۔‘‘ چند ثانیوں کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویاہوا ’’جب آپ گا رہی تھیں تو میں نے ہی آپ کے لیے کمبل بھیجاتھا۔ آپ چاہیں تو اسے اپنے پاس رکھ لیں، ممکن ہے اب آپ کو کمبل ایک اچھا تحفہ نہ لگے۔ لیکن ایسی جگہ جہاں لوگ سردی سے دم توڑ رہے تھے۔
یہی حقیر تحفہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ایونجلین بوتھ نے اس سے سوال کیاکہ کیا اسے سکاگ وے میں خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے جواب دیانہیں، جب تک میں یہاں ہوں، کبھی ایسا نہیں ہوگا، میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ اس رات اس نے پونے تین گھنٹے اس رہزن سے باتیں کیں۔ وہ کہنے لگی ’’میں انہیں نئی زندگی دینے آئی ہوں۔‘‘ اور تم ان کی جانیں لے رہے ہو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جان لو جیت تمہاری نہیں ہوگی۔
جلد یا بدیر وہ تمہیں جان سے ماردیں گے۔ اس نے باتوں ہی باتوں میں اس خطرناک ڈاکو کو اس کے بچپن کے واقعات یاد دلائے، اور اسے بتایا کہ وہ اپنی دادی کے ہمراہ مکتی فوج کے دستوں میں شرکت کیاکرتا تھا۔ اس نے خود بھی اعتراف کیا کہ اس کی دادی اماں نے بستر مرگ پر اس خواہش کااظہارکیاتھا کہ وہ اسے آخری بار وہ گیت سنائے جو انہوں نے ان جلسوں میں سیکھے تھے۔اور وہ گیت کیاتھے۔میرادل اب برف سے زیادہ شفاف ہے۔کیونکہ یہاں یسوع مسیح میرے ساتھ رہتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ میں گناہ گار ہوں، لیکن رب العزت نے مجھے معاف کر دیا ہے اور اب میرے سامنے صراط مستقیم ہے۔مس بوتھ نے اس سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ مل کر دو زانو ہو کر خدا سے معافی مانگے اور پھر مکتی فوج کی یہ لڑکی اور سوپی سمتھ نامی ڈاکو نے جس نے شمال میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ خداوندایزدی کے حضور دو زانو ہو کر خدا سے دعائیں مانگنے لگے۔ اشک آلود آنکھوں کے ساتھ سوپی نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ لوگوں کی جانیں نہیں لے گا اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے گا۔
جواباً مس بوتھ نے اس بات کی ضمانت دی کہ وہ اسے حکومت سے کم سے کم سزا دلانے کے لیے اپنا پورا اثر ورسوخ استعمال کرے گی۔چار بجے صبح وہ وہاں سے روانہ ہوگیا۔رات کے نو بجے اس نے اپنے ایک آدمی کے ہاتھ اسے عطیے کے طورپر خورو نوش کاسامان بھیجا۔دو روز بعد کسی نے سوپی سمتھ کو قتل کر دیا۔ سکاگ وے کے لوگوں نے اس شخص کے اعزاز میں ایک یادگار تعمیر کی ہے جس نے سوپی سمتھ کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ میں جن مسرور ترین لوگوں سے ملاہوں، ایونجلین بوتھ ان میں سے ایک تھی۔ مسرور اس لیے کہ اس نے اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس نے مجھے بتایاتھا کہ اس کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ وہ جس شخص سے ملے، خواہ وہ کسی کی خادمہ ہو یاریلوے اسٹیشن کاقلی۔ اس کی زندگی میں تھوڑا سا نکھار پیدا کر جائے۔