منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

ہیٹی گرین،وہ دو کروڑ پونڈ کی مالک تھی لیکن صبح اخبار خرید کر اسے دوبارہ نصف قیمت پر فروخت کر دیتی

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ہیٹی گرین دنیا کی امیر ترین عورت تھی۔ مرتے وقت اس کے پاس 20,000,000 پونڈ تھے۔ اس کے باوجود ہر متوسط عورت اس سے اچھا لباس پہنتی، اچھا کھانا کھاتی اور اس سے اچھے کمرے میں سوتی۔اس کی آمدنی ایک پونڈ فی منٹ تھی پھر بھی وہ صبح کا اخبار ایک پینی میں خرید کر اسے دوبارہ فروخت کر دیتی۔

سخت سردی میں وہ خود کو گرم رکھنے کے لیے اپنے لباس کے اندر اخبار تہہ کرکے رکھ لیتی۔ امریکہ میں وہ ریلوے کمپنیوں کی مالک تھی اوردوسری کمپنیوں میں اس کے حصے تھے۔ اس کے باوجود اگر اسے کبھی رات کے وقت سفر کرناہوتا تو وہ ان ڈبوں میں ہرگز سفر نہ کرتی۔ جن میں رات کے وقت سونے کا انتظام ہوتا ہے بلکہ عام ڈبوں میں سفر کرتی۔ایک دفعہ اس نے اپنے احباب کو بوسٹن میں پارک ہاؤس میں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ ہرکوئی سمجھتا تھا کہ بڑا ہنگامہ پرور موقع ہو گا۔ خواتین اپنے بہترین لباس اور مرد ڈنر سوٹ پہن کر آئے لیکن جب تمام مہمان آ چکے تو ہیٹی انہیں وہاں سے لے کر پیدل چل پڑی اور تین چار فرلانگ دورایک سستے ہوٹل میں کھانا کھلایا۔ بعض اوقات جب وہ بوسٹن میں ہوتی تو کسی نہایت گھٹیا اور سستے ہوٹل میں کھانا کھاتی۔ اپنی غذا پر اس نے کبھی تین پنس سے زیادہ خرچ نہیں کیاتھا حالانکہ اس کی آمدنی اس زمانے میں تین پنس فی سیکنڈ تھی۔جب وہ 78 برس کی ہوئی تو ایک اخباری نمائندے نے اس سے اس کی اچھی صحت کا رازپوچھا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ صبح کے وقت تھوڑی سی ترکاری، بھنے ہوئے آلو، چائے کی پیالی اور تھوڑا سا دودھ پیتی ہے۔ اور پھر ان کے جراثیم ہلاک کرنے کے لیے پیاز کھاتی ہے۔ لیکن اس نے یہ نہ بتایا کہ وہ پیاز کے جراثیم ہلاک کرنے کے لیے وہ کیاکرتی ہے؟

1893 ء کے گرم دنوں میں ہیٹی گرین ورثے میں ملے ہوئے اپنے گودام میں جاتی اور پسینے میں شرابور وہاں بیٹھ کرکام کرنے لگتی، کس قسم کا کام؟ وہ سفید چیتھڑوں کو رنگ دار چیتھڑوں سے الگ کرتی کیونکہ انہیں خریدنے والے سفید چیتھڑوں پر نصف پنس زیادہ دیتے تھے۔ اسے اپنا زیادہ تر وقت وال سٹریٹ میں اپنے سرمائے کی دیکھ بھال پر صرف کرناپڑتاتھا۔

اس نے سوچا کہ اگر وہ نیو یارک میں اپنا مکان لے کر رہنے لگی تو انکم ٹیکس والے اس کے پیچھے سائے کی طرح گھومنے لگیں گے اوراسے ہرسال چھ ہزار پونڈ بطور انکم ٹیکس ادا کرنا ہوں گے لہٰذا اس نے انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے ایک ترکیب نکالی۔ وہ کسی سستے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیتی اور پانچ چھ روز بعد کسی دوسرے ہوٹل میں منتقل وہ جاتی۔

بعض اوقات اس کے بہترین احباب کو بھی اس کی جائے رہائش کاعلم نہ ہوتا۔ بعض اوقات وہ کسی فرضی نام سے ہوٹل میں رہتی اور اتنا خراب لباس پہنتی کہ ہوٹل والوں کو کسی خستہ حال خاتون کا دھوکہ ہونے لگتا اور وہ اس سے پیشگی کھانے کے دام اور کمرے کا کرایہ رکھوا لیتے۔جب وہ بوڑھی ہونے لگی تو ایک معجزہ رونما ہوا۔ اس کے ایک دوست نے اسے بتایا کہ وہ ساٹھ پونڈ خرچ کرکے ایک نسخہ خرید سکتی ہے۔

جس سے وہ قدرے جوان دکھائی دے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے ساٹھ پونڈ خرچ کر دیے۔اس خیال کے ڈر سے کہ کہیں کوئی اس کے دستخطوں کی نقل اتار کر اسے فریب دینے کی کوشش نہ کرے۔ وہ ہمیشہ دستخط کرنے سے گھبراتی تھی، فقط ناگزیر حالات میں دستخط کرتی۔ لوگوں کی طرف سے اس کے پاس جتنے خطوط آتے وہ کاغذ بچانے کی خاطر انہی کی پشت پر جواب لکھ کر بھیج دیتی۔میرے ایک دوست بوائڈن سپارکس نے ہیٹی گرین کی سوانح حیات لکھی ہے۔

اس کتاب کا نام ’’ہیٹی گرین دولت سے محبت کرنے والی خاتون ہے۔‘‘ اس نے مجھے بتایا کہ نیو یارک کے کیمیکل نیشنل بنک میں ہیٹی گرین کا بہت سا روپیہ جمع تھا۔ اس نے اپنا گھر بھی اس بنک میں بنا لیا اور اپنے ترنک اور سوٹ کیس بنک میں رکھ دیے تھے۔ وہ اپنا پرانالباس بینک کے سیف میں رکھتی تھی وہ کہیں سے ایک گھوڑا گاڑی خرید لائی تھی۔ اور اس کے پہیے اتار کر بنک کی دوسری منزل پر رکھ دیے اور اس میں رہنے لگی۔

جب اس نے وہ کمرہ فروخت کیا تو اپنا فرنیچر بھی بنک میں رکھ دیا۔ان سب باتوں کے باوجود وہ ایک شفیق خاتون تھی۔ بنک میں ایک بوڑھا چپڑاسی تھا، جو بنک کے شیشے صاف کرنے کے علاوہ بعض ضروری کام بھی کرتاتھا۔ بنک والوں نے اسے نکال دیا۔ ہیٹی گرین کو اس بات کا دکھ ہوا اور اس نے اتنی دیر تک آرام نہ کیا جب تک اسے دوسری جگہ ملازم نہ رکھوا دیا۔ وہ 81 برس کی عمرمیں فالج کے ایک حملے سے وفات پا گئی۔

اس کی بیماری کے دوران اس کی دیکھ بھال کرنے والی نرسوں کو سفید اور صاف ستھرا لباس پہننے کی اجازت نہ تھی۔ وہ عام لباس پہنتیں تاکہ ہیٹی گرین انہیں عام ملازمائیں سمجھے۔ اگر بوڑھی عورت کو یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ تربیت یافتہ نرسیں تھیں۔ اور ان کے اخراجات بھی اسے ہی برداشت کرنا پڑ رہے تھے تو بے چاری آرام سے نہ مر سکتی تھی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…