نیو یارک کا وہ مکان جس کے بارے میں بہت چہ میگوئیاں ہوتی تھیں۔ گلی نمبر 39 کے پانچویں موڑ پر تھا۔بیس سال تک یہ گھر پراسرار مکان کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی اداس دیواروں کے اردگرد جاسوسی کہانیاں، اخباری مضامین، ڈراموں، حتیٰ کہ متحرک فلموں کے تانے بانے پھیلے رہتے تھے۔ اس مکان کے صدر دروازے پر گھوڑے کا نعل آویزاں تھا۔
ہرسال روزانہ کم و بیش پچاس ہزار لوگ اس دروازے کے سامنے سے گزرتے تھے لیکن ان میں سے کسی نے آج تک اس مکان کی کھڑکیوں کے اندر زندگی کا نشان نہ دیکھاتھا۔ اگر آپ کو کبھی تفریحی بس میں بیٹھ کر ففتھ ایونیو جانے کاموقع ملاہوتو غالباً وینڈل ہاؤس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا ان الفاظ میں تعارف کرایا گیاہو گا۔ یہ دنیا کا واحد گھر ہے۔ جہاں کتے کے کھیلنے کے لیے 200,000 پونڈ کے کرچ سے طویلہ بنایا گیاتھا۔ وینڈل خاندان نیو یارک کے امیر ترین گھرانوں میں سے تھا۔ ان کی جاگیر کی مالیت کا اصل اندازہ 20,000,000 پونڈ کے لگ بھگ تھا لیکن اس کے باوجود وہ بہت قدامت پسند تھے۔ ایک غیر شادی شدہ بھائی اپنی بہنوں کے ساتھ ایسے مکان میں رہتاتھا جس کی بنیاد اس وقت ڈالی گئی تھی جب ابراہم لنکن ابھی الیئس میں ایک گمنام وکیل کی حیثیت سے زندگی کے دن گزار رہا تھا۔ میں اب بھی تصورات کی دنیا میں گم ہو کر اس مکان کی تعمیر کا نظارہ کرتاہوں اورمجھے وہ مزدور سنگ مرمر اور دھات کے وہ ٹکڑے لے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو دور غلامی میں تعمیرات کے کام آتے تھے۔ وینڈل لوگ روشنی کے لیے گیس کی بتیاں استعمال کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بجلی کی نسبت یہ آنکھوں کے لیے کم نقصان دہ ہے۔ انہیں وائرلیس سیٹ، ملازموں، لفٹ اورموٹرکاروں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
موجودہ آسائشوں سے گھر میں صرف ایک ٹیلی فون تھا اوروہ بھی وینڈل کنبے کے آخری فرد کی موت سے دو روز پہلے لگایا گیاتھا تاکہ نرس ضرورت پڑنے پرڈاکٹر کو بلا سکے۔ وینڈل ہاؤس کی مالیت کا جو اندازہ لگایاگیاتھا وہ صرف 1500 پونڈ تھا لیکن ذاتی وکیل کنبے والوں کو اکثر کہا کرتاتھا کہ 1500 پونڈ مالیت کے اس گھر میں رہنے کے لیے انہیں روزانہ 200 پونڈ خرچ کرنا پڑتاتھا
اور یہ بات سچ بھی تھی کیونکہ جس زمین پر یہ مکان کھڑاتھا اس کی قیمت 800,000 پونڈ کے لگ بھگ تھی اور اس رقم کا سود اور ٹیکسوں وغیرہ کو ملا کر روزانہ کوئی چار سو پونڈ خرچ کااندازہ بیٹھتا تھا۔ لیکن اس ساری دولت کے باوجود وینڈل کنبے کا رہن سہن بالکل قدامت پسندانہ تھا۔ اپنی موت تک اس کے کپڑوں کی کٹائی اور سلائی بالکل اس سوٹ کے مطابق تھی جو اس نے خانہ جنگی (1865ء) کے آخری دور میں بنوایا تھا۔ یہ سوٹ اس صندوق میں پڑا تھا۔
جہاں اسے کوئی چالیس برس پہلے پہلی بار رکھا تھا اور جان نے اسی سوٹ کی طرح کوئی اٹھارہ سوٹ بنوا رکھے تھے۔ وہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنتا تھا۔ اس لیے اگر اسے سیاہ سوٹ کی ضرورت پڑتی تو وہ سکاٹ لینڈ کی ایک فرم سے کپڑا منگواتاتھا جو اس کے لیے خاص طور پر سیاہ بھیڑوں کی اون سے تیارکرتی تھی۔ بارش ہو یا دھوپ، گرمی ہو یاسردی، جب بھی وہ باہر نکلتا، اس کے ہاتھ میں چھتری ضرور ہوتی تھی۔اس کے پاس تنکوں کا بنا ہوا ایک ہیٹ تھا۔
جو اس نے کئی سال مسلسل استعمال کیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل بوسیدہ ہو گیا۔ اس کے باوجود وہ اس پر ہر سال رنگ کروا لیتا۔ اس طرح ہیٹ دوبارہ استعمال کے قابل ہو جاتا وہ جب بھی اپنے دوستوں کو دعوت پر بلاتا تودعوت نامے لاطینی زبان میں چھپواتا۔اس کا ایمان تھا کہ تمام عجیب و غریب بیماریوں کے جراثیم پاؤں کے ذریعے انسانی جسم تک پہنچتے ہیں چنانچہ وہ اپنے پیروں کو جراثیم سے محفوظ رکھنے کے لیے گٹے پارچے کے بنے ہوئے جوتے پہنتا تھا۔
جن کا سول ایک انچ موٹا ہوتاتھا۔ جان گٹ لب وینڈل اپنے وقت میں نیو یارک کا سب سے بڑا جاگیردار تھا اور اس کے امیر بننے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی جگہ جمابیٹھاتھا اوراس کے اردگرد شہر آباد ہو گیاتھا۔ وینڈل کی بہنیں شراب نوشی کے سخت خلاف تھیں ایک بار انہوں نے 200,000 پونڈ کے پٹے پر محض اس لیے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھاکیونکہ وہ اس بات کی ضمانت چاہتی تھیں کہ اس عمارت میں ابتدائی طبی امداد کا جو سامان اور دواؤں کی جو الماری رکھی جائے گی۔
اس میں ایک گلاس سے زیادہ الکحل شامل نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود ان کے گھر سے ان کی موت کے بعد 2000 پونڈ مالیت کی نایاب شرابیں، وسکی اور شمپیئن برآمد ہوئی انہیں کبھی چھوا تک نہیں گیاتھا اور یہ سب کی سب اپنی جگہ پر پڑی سڑ گئی تھیں۔ جان گوٹ لب وینڈل کی سات بہنیں تھیں اور اس نے ان سب کو شادی سے باز رکھنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیاتھا۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر انہوں نے شادیاں کر لیں اور ان کے بچے ہوگئے توتمام جاگیر کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔
اس لیے اس نے انہیں متنبہ کر دیا کہ تمام مرد ان کی دولت کے بھوکے ہیں اور اگر ان سے ملنے کوئی مرد آتا تو وہ اسے صاف طور پرکہہ دیتا کہ وہ دوبارہ آنے کی جرأت نہ کرے۔ ان میں سے صرف ایک بہن مس ریکا نے شادی کی اور وہ بھی ساٹھ برس کی عمر میں۔ باقی بہنیں کسی سے رشتہ جوڑے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی کھوکھلی زندگی کی داستان اس حقیقت کی درخشندہ مثال ہے کہ پیسہ بذات خود کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ تمام بہنوں میں جارجینا سب سے زیادہ دلیر تھی۔
وہ خاندانی پابندیوں کے خلاف مسلسل جہاد کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ ذہنی مرض کا شکار ہوگئی۔ پورے بیس برس وہ دماغی امراض کے شفا خانے میں زیر علاج رہی اور جب 1930ء میں اس کا انتقال ہوا تو اس کے بہت سے دوست یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ کئی برس پہلے مر چکی ہے۔ وہ تنہا تقریبا 1,000,000 پونڈ کی مالک تھی لیکن اتنی دولت سے اسے رتی بھر خوشی نصیب نہ ہو سکی۔ ایک اور بہن جوزافین اپنی ایک دیہاتی حویلی میں رہتی تھی۔
جہاں نوکروں کے سوا اور کوئی نہ ہوتا تھا اس کی زندگی کا سب سے الم ناک پہلو یہ تھا کہ وہ اسی تصور میں کھوئی رہتی تھی کہ اس کاگھرخوش و خرم اور بچوں سے آباد ہے اور وہ ان کے ساتھ باتیں کر اور کھیل رہی ہے وہ یہ بھی تصور کرتی کہ لوگ اس سے ملنے آ رہے ہیں۔ چنانچہ باربار نوکروں کو حکم دے کر خیالی مہمانوں کے لیے کھانے کی میزیں لگواتی۔ خود بھی ایک کرسی پر بیٹھ جاتی، وہاں بیٹھ کر تھوڑا سا کھانا کھاتی، پھر دوسری کرسی پر چلی جاتی،
پھر تیسری اور پھر چوتھی کرسی پر اور اس طرح خود کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی کہ بہت سے مہمان کھانا کھا رہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے جب بہنوں کاانتقال ہو گیاتو ان کے دروازوں پر تالے پڑتے گئے اور ان کی کھڑکیاں بند ہوتی گئیں۔ حتیٰ کہ آخر میں مس الاصرف اپنے سونے کاکمرہ نچلی منزل میں کھانے کاکمرہ اور اوپر والی منزل میں وہ بڑا سا چوبارہ کھلا رکھتی تھی۔ جہاں اس نے اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارے تھے۔
کئی برس تک وہ اس چالیس کمروں والے مکان میں اپنے فرمانبردار نوکروں اور اپنے فرانسیسی کتے ٹوبی کے ساتھ رہی۔ ٹوبی الا کے کمرے میں ہی سوتا تھا۔ اور اس کا بستر بھی اپنی مالکن کے بستر جیسا تھا۔ کھانے کی میز پر ٹوبی علیحدہ میز کرسی پر بیٹھ کر بسکٹ اور مربہ کھایا کرتا تھا۔ ایلا وینڈل مرتے وقت اپنی تمام جاگیر تبلیغی کاموں کے لیے میتھ ڈسٹ گرجے کے نام وقف کر گئی حالانکہ اپنی زندگی میں اس نے کبھی کبھار گرجے کا رخ کیاتھا۔
مرتے وقت اسے یقین تھا کہ دنیا میں اس کا کوئی عزیز رشتے دار زندہ نہیں۔ لیکن صرف ایک سال کے عرصے میں اس کے کوئی 2300 نام نہاد رشتے دار حشرات الارض کی طرح نکل آئے۔ صرف ٹے نسی میں 290 رشتے دار پیدا ہوگئے اور سب کے سب 7000,000 پونڈ جاگیر کے لیے منہ کھولے بیٹھے تھے۔ جرمنی سفارت خانے نے 400 وینڈلوں کی طرف سے دعویٰ دائر کیا اور چیکو سلواکیہ میں اتنے وارث پیدا ہوگئے کہ وزارت خارجہ کی مدد لینا پڑی۔
دو اشخاص نے دعویٰ کیا کہ وہ جان وینڈل کی دو خفیہ شادیوں سے پیدا ہوئے تھے اور ان میں سے ایک کو تو بعد میں شادی کا سرٹیفکیٹ اور نقلی وصیت نامہ تیار کرنے پر سزائے قید بھی بھگتنا پڑی۔ جان گوٹ لب وینڈل نے کوئی وصیت نہ کی وہ کہا کرتاتھا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتاکہ کوئی وکیل اس کی جائیداد سے روپیہ کمائے اور ہاں مزے کی بات یہ ہے کہ جاگیر کے فیصلے سے پہلے ایک وکیل نے نہیں بلکہ 250 وکیلوں نے وینڈل کے وارثوں سے فیسیں وصول کی تھیں۔