منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

ہارورڈ تھرسٹن، وہ پادری بننا چاہتاتھا مگر دنیا کا نام ور شعبدہ باز بن گیا

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آج سے کوئی پچاس سال پہلے موسم سرما کی ایک رات کو شکاگو میں تماشائیوں کا ایک بہت بڑاہجوم میویکرز تھیٹر سے باہر نکل رہا تھا۔ تھیٹر میں ان لوگوں کو اپنے وقت کے سب سے بڑے جادوگر نے بے حد محظوظ کیا تھا۔ اس لیے وہ سب کے سب باہر نکلتے ہوئے ہنس رہے تھے۔اسی وقت تھیٹر سے باہر فٹ پاتھ پر ایک اخبار فروش لڑکا سردی سے ٹھٹھرا ہوا ’’روزنامہ شکاگو ٹربیون‘‘ بیچنے کی کوشش کر رہاتھا۔

اس کی حالت قابل رحم تھی۔ اس کے پاس نہ تو تن ڈھانپنے کو کوٹ تھا اور نہ ہی رہنے کے لیے گھر اور نہ رات بسر کرنے کے لیے ہوٹل کا کرایہ۔ اس رات جب تماشائی رخصت ہو گئے تو اپنے اردگرد اخبار لپیٹ کرتھیٹر کے پچھلی طرف ایک بھٹی کے پاس لیٹ گیا۔ اس جگہ لیٹے لیٹے جب وہ سردی اور بھوک سے نڈھال ہو رہا تھا تو اس نے قسم کھا لی کہ وہ بھی جادوگر بنے گا۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی لوگوں کو حیرت انگیز کرتب دکھا کر ان سے خراج تحسین وصول کرے۔ فروالاکوٹ پہن کر تھیٹر کی سٹیج پر ادھر ادھر گھومے اور جب سٹیج کے دروازوں پر نظر دوڑائے تو وہاں نوجوان اور خوب صورت لڑکیوں کو اپنا منتظر پائے۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ جادوگر بننے کے بعد وہ اسی تھیٹر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرے گا۔ اس لڑکے کا نام ہارورڈ تھرسٹن تھا۔ بیس سال بعد اس نے اپنی قسم پوری کر دی۔ تھیٹر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے لوگوں سے خراج تحسین وصول کرنے کے بعد وہ تھیٹر کی پچھلی طرف اسی جگہ آیا۔ جہاں پچیس سال پہلے اس نے بھوکے پیاسے رات گزاری تھی۔ اس رات اس نے تھیٹر کی دیوار پر اپنا نام کندہ کیا تھا، جو اب بھی موجود ہے۔ 13 اپریل 1936ء کو جب ہارورڈ تھرسٹن کا انتقال ہوا تو وہ اپنے آپ کو جادو گروں کابادشاہ تسلیم کروا چکا تھا۔ گزشتہ چالیس برسوں میں اس نے دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے تماشائیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔

کم و بیش چھ کروڑ تماشائی اس کے فن کی داد دے چکے تھے اور اس عرصہ میں اس نے جو نفع کمایا تھا وہ 400,000 سے زیادہ تھا۔ہارورڈ تھرسٹن کی موت سے کچھ عرصہ پہلے میں نے تھیٹر میں اس کے ساتھ ایک شام گزاری۔ میں سٹیج کے بغلی دروازوں سے اس کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ تماشا ختم ہونے کے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ ڈریسنگ روم میں لے گیا اور مسلسل کئی گھنٹے اپنے کارناموں کی کہانیاں سناتا رہا۔

اس کی زندگی کے حقائق بھی ان کرشموں سے کم حیرت انگیز نہ تھے۔ جن کا وہ سٹیج پر مظاہرہ کرتا تھا۔ ابھی وہ بچہ ہی تھا کہ ایک روز اس کے باپ نے چابک مار مار کر اس کی چمڑی ادھیڑ دی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے گھوڑوں کو ضرورت سے زیادہ دوڑایا تھا۔ غصے سے پاگل ہو کر ہارورڈ تھرسٹن گھر سے نکل گیااور گلی کوچوں میں دوڑتا ہوا گھر سے غائب ہوگیا۔ پانچ سال تک اس نے ماں باپ کو نہ تو اپنی شکل دکھائی اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی خبر مل سکی۔

مایوس ہو کر وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ ہو نہ ہو تھرسٹن مر گیا۔ خود تھرسٹن نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کا زندہ بچ جانا معجزے سے کم نہ تھا۔ در در کی خاک چھاننے کے بعد اس نے بھیک مانگنا شروع کر دی۔ اس طرح بھی پیٹ کی آگ نہ بجھی تو چھوٹی موٹی چوریاں شروع کر دیں۔ وہ سارا سارا دن گلیوں اور سڑکوں پر مارامارا پھرتا اور رات کو کسی کھنڈر میں یا بند دکان کے تختے پر لیٹ رہتا۔ وہ کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھا، کتنی بار لوگوں نے اس کا پیچھا کیا۔

اسے بلاٹکٹ سفر کرنے پر گاڑیوں کے نیچے دھکیلا گیا۔ کئی بار اس پر گولیاں تک چلائی گئیں، بعد میں وہ جیکی اور جواری بن گیا۔ سترہ سال کی عمر میں وہ نیو یارک میں تھا۔ بے یار و مددگار وہ خالی جیب سڑکوں کے چکر کاٹتا، پھر اس کی زندگی کا سب سے زیادہ اہم واقعہ رونما ہوا۔ ایک روز وہ ایک مذہبی جلسہ میں جا گھسا اور اس نے پادری کو انجیل کے یہ الفاظ دہراتے سنا۔ ’’تمہارے اندر انسان ہے۔‘‘ پادری کی باتیں سن کر تھرسٹن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے دل کو ٹٹولا اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے توبہ کی، توبہ کرتے ہوئے وہ زار و قطار رو رہا تھا۔ اس توبہ کے بعد تھرسٹن کے دل کا غبار ہلکا ہو گیا۔ اور وہ ایک انجانی خوشی محسوس کرنے لگا۔ اس نے پادری بننے کے ارادے سے نارتھ فیلڈ کے موڈی بائبل سکول میں داخلہ لے لیااور اپنی فیسوں وغیرہ کا خرچ پورا کرنے کے لیے محنت مزدوری کرتا رہا۔ اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی اور اس وقت تک اس نے سکول میں صرف چھ ماہ تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔

اس نے تھوڑا بہت پڑھنا بھی بہت عجیب طریقے سے سیکھاتھا۔ مال گاڑی میں بیٹھ کر وہ ریل لائن کے دونوں جانب لگے ہوئے اشتہاروں کو دیکھتا اور پھر ان میں سے کسی نہ کسی لفظ کے ہجے اپنے ساتھی سے پوچھ کر زبانی یاد کر لیتا۔ وہ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتا تھا، چنانچہ بائبل سکول میں داخلہ لینے کے بعد وہ دن کے وقت یونانی زبان اور بیالوجی سیکھتا اور رات کو لکھنے پڑھنے اور ریاضی کاسبق لیتا۔

بالآخر اس نے پادری ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا وہ اس ارادے سے پینسلیونا یونیورسٹی میں داخلہ لینے ہی والاتھا کہ ایک ایسا چھوٹا واقعہ ہوا کہ جس نے اس کی زندگی کا رخ پھیر دیا۔ میسی چوسٹس سے فلاڈیفیا جاتے ہوئے اسے البانی کے مقام پر گاڑی بدلنا تھی۔ گاڑی کے آنے تک اپنا فارغ وقت گزارنے کے لیے وہ ایک تھیٹر میں چلاگیا۔ یہاں الیگزینڈر ہرمن جادو کے کرتب سے حاضرین کو مسحور کررہا تھا۔ تھرسٹن کو بچپن ہی سے ایسے کرتبوں سے بڑی دل چسپی تھی۔

وہ اپنے دوستوں کو اکثر تاش کے کرتب دکھایا کرتاتھا۔ اس شوق کی وجہ سے وہ الیگزینڈر ہرمن کا بہت بڑا عقیدت مند تھا۔ تھیٹر میں جب اس نے الیگزینڈر ہرمن کو اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا تو اس کا جی چاہا کہ وہ اس سے بات کرے اور جب کچھ اور نہ بن پڑا تو اس نے اس ہوٹل میں جہاں الیگزینڈر ہرمن ٹھہرا ہوا تھا، اس کے ساتھ والا کمرہ کرائے پر لے لیا۔ اس نے کئی بار ارادہ کیا کہ ہرمن کے کمرے میں جا کر اس سے بات کرے لیکن ہر بار ہرمن کے دروازے پر پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے جاتی۔

دوسری صبح وہ اس مشہور جادوگر کا پیچھا کرتا ہوا ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا اور پلیٹ فارم پر اس سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا ہو کر چپ چاپ اس کی طرف دیکھتا رہا۔ یہ جادوگر سایرا کوز جا رہا تھا اور تھرسٹن کو نیو یارک جانا تھا۔ کم از کم وہ دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ اسے نیویارک جانا ہے۔ وہ نیویارک کی ٹکٹ خریدنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن غلطی سے اس نے بھی اسی شہر کی ٹکٹ خرید لی جہاں اس کا محبوب جادوگر جا رہا تھا۔

اس غلطی نے اس کی کایا پلٹ دی اور اس غلطی سے وہ پادری کی بجائے جادوگر بن گیا۔ جن دنوں تھرسٹن کی شہرت عروج پر تھی۔ وہ ایک تماشے کے لیے دوسو پونڈ لیتا تھا لیکن میں نے اسے کئی بار یہ کہتے سنا تھا کہ اس کی زندگی کا سب سے اچھا دور وہ تھا جب وہ طبی امداد کے شو کے لیے صرف پانچ شلنگ کے عوض تاش کے کرتب دکھایا کرتاتھا۔ اب اشتہاروں اور خبروں میں اس کا نام جلی حروف سے لکھا جاتا تھا اور وہ ’’تھرسٹن شمال کا عظیم جادوگر کہلاتا تھا۔‘‘

تھرسٹن نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بہت سے لوگ اس جتنے کرتب جانتے ہیں پھر آخر اس کی کامیابی کا راز کیاتھا؟ اس کی کامیابی کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنی شخصیت کو پوری طرح اجاگر کرنا جانتا تھا۔ وہ ایک عظیم فن کارتھا۔ وہ انسانی فطرت سے پوری طرح واقف تھا۔ وہ کہا کرتاتھا کہ جادوگر کے لیے لوگوں کی نفسیات کو سمجھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ جادو کا جاننا۔

کرتب تو خیر بڑی بات ہے۔ وہ سٹیج پر کوئی حرکت کرنے سے پہلے خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو اس کی خوب ریہرسل کر لیتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے تماشائیوں سے محبت کرتا تھا۔ پردے اٹھنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو چست بنانے کے لیے سٹیج پر ادھر ادھر گھومتا رہتا۔ اور اپنے آپ بڑبڑاتا کہ مجھے اپنے تماشائیوں سے محبت ہے۔۔۔ انہیں محظوظ کرنے میں مجھے بہت لطف آتا ہے۔۔۔ میرا فن بہت عظیم ہے۔۔۔ میں کس قدر خوش ہوں، میں کس قدر خوش ہوں۔‘‘ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ خود خوش نہ ہوا تو کسی اور کو خوش نہ کر سکے گا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…