ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ جنوری 1919ء کو ایک ایسا واقعہ رونما ہوا۔ جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ اس وقت میں فوج میں تھا اور ہماری بٹالین لانگ آئی لینڈ پر کیمپ پٹون میں مقیم تھی۔ ایک دوپہر کو فوج کا ایک دستہ قریبی پہاڑی کے اوپر گیا۔ سپاہیوں نے اپنی رائفلیں ہوا میں بلند کیں اور سلامی گولیاں چلانے لگے۔ امریکہ کا صدر روز ویلٹ دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔
تھیوڈور روز ویلٹ جس کا شمار امریکہ کے بہترین صدور میں ہوتا ہے۔ وہ نسبتاً جوان فوت ہوا تھا۔ تھیوڈور روز ویلٹ کی تقریباً ہر بات غیر معمولی تھی۔ مثلاً اگرچہ اس کی بینائی اس قدر کمزور تھی کہ عینک کے بغیر وہ دس فٹ کے فاصلے پر بھی اپنے بہترین دوست کو بھی نہیں پہچان سکتاتھا۔ اس کے باوجود اس کا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ اس نے افریقہ کے جنگلوں میں حملہ آور شیروں کو گولی کا نشانہ بنا دیا اور موت کی نیند سلا دیا۔ اس کا شمار بڑا شکار کرنے والے بہترین شکاریوں میں ہوتا ہے لیکن اس نے نہ تو کبھی مچھلی کا شکار کیااور نہ ہی کسی پرندے پر گولی چلائی تھی۔ لڑکپن میں وہ اکثر بیمار رہتاتھا۔ اسے دمے کی شکایت تھی لہٰذا اپنی صحت کی بحالی کے لیے مغربی امریکہ چلا گیا اور وہاں کاؤبوائے بن گیا۔ وہاں وہ کھلے آسمان تلے ستاروں کی چھاؤں میں سویا کرتاتھا۔ آخر اس کی صحت اس قدر اچھی ہو گئی کہ وہ مشہور مکہ باز مائیک ڈونووان سے اکثر مکہ بازی کا مقابلہ کرتا۔ وہ جنوبی امریکہ کے جنگلوں میں گھوما کرتا۔ دشوار گزار پہاڑوں پر چڑھا۔ اور کیوبا میں گولیوں کی بوچھاڑ میں سان جوان پہاڑی پر حملہ آور ہوا۔ روز ویلٹ نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ بچپن میں وہ بڑا اعصاب زدہ اور مسکین ہوتاتھا۔ اور زخمی ہونے سے بے حد ڈرتا تھا۔ اس کے باوجود اس نے اپنے کندھے، بازو، ناک، پسلیاں اور کلائی توڑیں اور پھربھی خطرے میں کودنے سے نہ گھبراتا تھا۔
جب وہ ڈیکونا میں کاؤبوائے تھا تو اکثر اپنے گھوڑے پر سے گر کر کوئی نہ کوئی ہڈی پسلی تڑوا لیتاتھا۔ اس کے باوجود اسی حالت میں دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو کر مویشی ہانکنے لگتا۔ وہ لکھتا ہے کہ جس کام سے وہ ڈرتا تھا۔ اسی کو انجام دینے سے اس میں جرأت پیدا ہوئی۔ وہ خود کو یوں ظاہر کرتا کہ جیسے اسے موت سے مطلق ڈر نہیں لگتا۔ آخر وہ اس قدر جرأت مند ہو گیا کہ گرجتے ہوئے شیر اورآتشیں توپوں کے دہانے بھی اس کی جرأت کومتزلزل نہ کر سکتاتھا۔
1912ء میں الیکشن کی تحریک کے دوران میں ایک نیم پاگل شخص نے اس کے سینے میں گولی مار دی وہ تقریر کرنے کے لیے کہیں جا رہا تھا۔ روزویلٹ نے کسی کو پتا نہ چلنے دیا کہ گولی اسے لگی ہے۔ وہ اسٹیج پر گیااور اس وقت تک تقریر کرتا رہا جب تک زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے بے ہوش نہ ہوگیا۔ تب اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ وائٹ ہاؤس میں رہائش کے دوران وہ اپنے تکیے کے نیچے بھرا ہوا پستول رکھ کر سوتا تھا اور جب سیر کے لیے نکلتا تو اپنے ساتھ ایک چھوٹا پستول لے کر نکلتا تھا۔
جب وہ فوجی افسر تھا تو ایک فوجی افسر اس سے اکثر مکہ بازی کیا کرتاتھا۔ ایک دن اس فوجی افسر نے اس کی بائیں آنکھ پر مکہ مارا۔ جس سے خون کی ایک نس پھٹ گئی، جس سے اس کی نظر مستقل طور پر کمزور ہو گئی لیکن تھیوڈور روزویلٹ نہیں چاہتا تھا کہ اس فوجی افسر کو معلوم ہو اور اسے اپنے کیے پر افسوس ہونے لگے لہٰذا جب اس افسر نے اگلی دفعہ اسے باکسنگ کے لیے کہا تو روزویلٹ نے انکار کر دیا۔ اسے اندازہ ہو گیاتھا کہ عمر کے اس حصے میں اب اسے اس قسم کی کھیلوں میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔
کئی برس بعد اسے اس آنکھ سے دکھائی دینا بند ہو گیالیکن اس نے اس فوجی افسر کو کبھی یہ معلوم نہ ہونے دیا کہ یہ اس کی وجہ سے تھا۔ اس نے کبھی سگریٹ نہ پیا۔ اس نے کبھی قسم نہ کھائی تھی۔ شراب بھی کبھی نہ پی تھی۔ کبھی کبھی خاص مواقع پر ملک شیک میں تھوڑی سی برانڈی ملا کر پی لیتا۔ اس کے باوجود اس کے بدخواہ اسے پکا شرابی کہا کرتے تھے۔ آخر ان کی زبان کو لگام دینے کے لیے اسے ان کے خلاف قانونی اور عدالتی کارروائی کرنا پڑی۔
خواہ وہ کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوتا۔ وہ مطالعہ کے لیے وقت نکال لیتا۔ اس نے وائٹ ہاؤس میں رہ کر ہزاروں کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اکثر دوپہر کے بعد بیسیوں لوگ اس کے انٹرویو کو آتے۔ وہ اپنی گود میں ایک کتاب رکھے بیٹھا رہتا اور ہر انٹرویو کے بعد جو چند سیکنڈ ملتے، اس میں کتابکے مطالعہ میں مصروف ہو جاتاتھا۔ جب وہ سفر پر جاتا تو اپنی جیب میں شیکسپیئر یا روبی برنز کی کوئی نہ کوئی کتاب ضرور رکھتا۔ ایک دفعہ جب وہ ڈیکونا میں گھوڑوں کی رکھوالی کر رہا تھا تو اس نے اپنے ساتھی کو پورا ’’ہملٹ‘‘ پڑھ کر سنا دیا۔
برازیل کے جنگلات میں سفر کرتے ہوئے وہ اپنی راتیں گہن کی ’’زوال سلطنت روما‘‘ پڑھنے میں بسر کیا کرتاتھا۔ اسے موسیقی سے پیار تھا لیکن اس نے جب بھی کبھی بذات خود گانے کی کوشش کی سخت ناکام رہا۔ ایک دفعہ وہ مغربی امریکہ کے ایک شہر کے بازاروں میں سے گزر رہا تھا۔ ہزاروں لوگ اس کے استقبال کے لیے جمع تھے۔ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں سلام کر رہا تھا اور زیر لب یہ گنگنائے جا رہا تھا۔ ’’میرا خدا میرے نزدیک ہے۔‘‘ اس کی بہت سی ہابیز تھیں۔
ایک دفعہ اس نے ایک نامور اخبار کے نمائندے کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی۔ اس اخباری نمائندے نے سمجھا کہ شاید وہ اس سے کوئی اہم بات کرنے والا ہے، لہٰذا اس نے اخبار کے ایڈیٹر کو بذریعہ تار مطلع کیا کہ وہ اس اہم خبر کا انتظار کرے اور اس وقت تک اخبار کی کاپیاں پریس میں نہ جانے دے۔جب وہ اخباری نمائندہ وائٹ ہاؤس پہنچا توتھیوڈور روز ویلٹ نے اس سے سیاست کے بارے میں ایک بات بھی نہ کہی۔
اس کے برعکس اس نے ایک پرانے درخت کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہاں اس نے الوؤں کا ایک نیا جوڑا تلاش کیا ہے۔ ایک دفعہ وہ اپنی کار میں کہیں جا رہا تھا اچانک اس نے کھیتوں میں ایک کسان کو دیکھا جو ہاتھ ہلا کر اسے سلام کر رہا تھا تھیوڈور روزویلٹ نے فوراً کار روک لی۔ کار سے اترا اور بڑی گرم جوشی سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔ یہ کوئی سیاسی ڈھونگ نہیں تھا۔ اسے حقیقتاً اپنے عوام سے بے حد محبت تھی۔
زندگی کے آخری ایام میں اس کی صحت گرنے لگی۔ اگرچہ وہ فقط ساٹھ برس کا تھا لیکن اکثر کہا کرتاتھا کہ وہ بوڑھا ہو رہا ہے۔ ایک دفعہ اس نے اپنے ایک پرانے دوست کو لکھا کہ ’’تم اور میں اب موت کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہیں۔‘‘ ہم کسی وقت اس میں گر سکتے ہیں۔ 14 جنوری 1919ء کو وہ سویا سویا بڑے آرام سے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی زبان سے آخری الفاظ یہ نکلے تھے۔ ’’روشنی گل کر دو۔‘‘