منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

مادام ارنسٹائن سکومان ہینک، فاقوں سے تنگ آ کر اس نے خود کشی کی کوشش کی اور دنیا کی نامور مغنیہ بن گئی

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیل کارنیگی بتاتے ہیں کہ مادام ارنسٹائن سکومان ہینک نے کس طرح مسلسل بھوک، حوصلہ شکنیوں اور مایوسیوں کا مقابلہ کرکے خود کو دنیائے موسیقی کی ایک بلند مغنیہ منوایا۔ یہ کہانی رقص گاہوں کے ماحول اور فلمی زندگی کی ایک غیر معمولی کہانی ہے۔کامیابی کے لیے اس کی جدوجہد تلخ اور سخت تھی۔ اس پر ایک ایسا دور بھی آیا کہ اس نے خود کو ہر طرف سے مایوسیوں میں گھرا ہوا دیکھ کر خودکشی کی کوشش کی۔

اس کی شادی ایک المیہ ثابت ہوئی۔ اس کا شوہر اسے مقروض چھوڑ کر کہیں بھاگ گیاتھا۔ جرمنی میں اس زمانے کے قانون کے تحت ایک بیوی اپنے شوہر کے قرضوں کو چکانے کی ذمہ دار ہوتی تھی۔ اس کے قرض خواہ ماسوائے ایک کرسی اور ایک بستر کے گھر کی ہر شے لے گئے۔ جب کبھی اسے یہاں وہاں گانے کی چھوٹی موٹی ملازمت ملتی تو قرض خواہ دوبارہ آ دھمکتے اور اس کی مزدوری میں سے بڑا حصہ لے جاتے۔ اپنے تیسرے بچے کی پیدائش سے چھ گھنٹے قبل وہ ایک جگہ گا رہی تھی۔ اس وقت درد سے اس کی بری حالت ہو رہی تھی لیکن وہ گانے پر مجبور تھی۔ کیونکہ اسے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا تھا۔ سردیوں میں اس کے بچے بھوک اور سردی سے بلبلاتے لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہ ہوتے کہ کوئلہ وغیرہ خرید کر کمرہ گرم کر سکے۔ آخر مایوسی سے تنگ آ کر نیم دیوانگی کی حالت میں اس نے خود کو اور اپنے تینوں بچوں کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن خود کشی کرنے کی بجائے اس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک روز دنیا کی ایک نام ور مغنیہ بن گئی۔اپنی موت سے چند ماہ قبل اس نے مجھے شکاگو اپنے یہاں کھانے پرمدعو کیا اور وعدہ کیا کہ وہ کھانا خود اپنے ہاتھ سے تیار کرے گی پھر اس نے کہا کہ اگر آپ یہ کہنے آئے ہیں کہ میں ایک عظیم مغنیہ ہوں تو میں بھی آپ کو پسند کرنے لگوں گی۔

لیکن کھانا کھانے کے بعد اگر آپ نے یہ کہا کہ مادام ارنسٹائن سکومان ہینک، اس سے بہتر اور مزے دار کھانا میں نے آج تک نہیں کھایا، تو اس صورت میں آپ مجھے زندگی بھر ایک بہترین دوست پائیں گے۔ اس نے مجھے بتایا کہ ایک مغنیہ کی حیثیت سے اس کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں سے محبت کرتی تھی۔ مذہب نے اسے لوگوں سے پیار کرنا سکھایا تھا۔ وہ ہر روز مقدس بائیبل پڑھتے اور خدا کے حضور گھٹنوں کے بل جھک کر ہر روز دعا مانگتی تھی۔

اس نے مجھے بتایا کہ زندگی کے المیوں نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ دکھوں نے اس کے اندر ہم دردی، ایثار اور خلوص کا جذبہ پیدا کردیا تھا۔ اس کے غموں نے اس کی آواز میں ایک ایسا جادو بھردیا تھا کہ جو لاکھوں دلوں میں اتر جاتا تھا اگر آپ نے کبھی اس کا کوئی گیت سنا ہے تو آپ یقیناً اس کی آواز کے سوز سے واقف ہوں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اسے اپنے بچوں سے کس قدر محبت تھی، میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے خود کو اور اپنے بچوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کیوں کی تھی۔

اس پر اس نے مجھے ذیل کا واقعہ سنایا: میں فاقہ زدہ، بیمار اور دل شکستہ تھی۔ اس نے کہا کہ مجھے مستقبل میں بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری طرح میرے بچے بھی فاقوں کاشکارہوں۔ میں نے سوچا کہ یوں زندگی گزارنے سے توموت ہی بھلی ہے۔ لہٰذا میں نے خود کو اپنے بچوں کو ٹرین کے نیچے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے سارا منصوبہ تیار کر لیاتھا۔ مجھے گاڑی کے گزرنے کا وقت معلوم تھا۔

بچے بھوک سے بلبلاتے، میرے پہلو میں گاڑی کی لائن کی طرف چل رہے تھے۔ پھر مجھے گاڑی کی وسل سنائی دی۔ میں گاڑی کی لائن کے قریب پہنچ چکی تھی۔ میں نے بچوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور گاڑی کی لائن پر لیٹ گئی۔ابھی میں لائن پر لیٹی ہی تھی کہ میرے ساتھ لیٹی ہوئی میری سب سے چھوٹی بچی نے میری طرف سر پھیر کر کہا۔ ’’امی جان مجھے آپ سے بڑاپیار ہے، دیکھئے یہاں کس قدر سردی ہے۔ مجھے گھر لے چلیں۔‘‘بچی کی آواز سن کر میں ہوش میں آ گئی۔

میں نے جلدی سے اپنے تینوں بچے لائن سے اٹھائے اور سرد ویران گھر کی طرف چل دی۔ گھر آ کر میں گھٹنوں کے بل خدا کے حضور جھک گئی اور دیر تک رو رو کر خلوص سے دعا مانگتی رہی۔ اس وقت تک مادام ارنسٹائن سکومان ہینک نے زندگی میں جو کام بھی کیا تھا۔ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ لیکن خود کشی کی اس کوشش کے چند سال بعد برلن کا رائل اوپرا ہاؤس، لندن کا کانووینٹ گارڈن اور نیو یارک میٹرو پولیٹن اس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر اسے معاوضہ دینے کو تیار تھے۔

اس نے برسوں تنگ دستی میں زندگی گزاری تھی کامیابی نے برق رفتاری سے اس کے قدم چومے، یہی اس کا دستور ہے۔ مادام ارنسٹائن سکومان ہینک کا والد ایک آسٹرین آفیسرتھا۔ اس کی تنخواہ کم مگر کنبہ بڑاتھا۔ اس طرح بچپن ہی سے ارنسٹائن بھوک کی تکلیف سے واقف تھی اگر کسی روز اسے پیٹ بھر کر کھانا مل جاتا تو وہ خدا کا شکر ادا کرتی۔ مکھن وغیرہ کی اس نے کبھی شکل نہ دیکھی تھی۔ جب وہ سکول جاتی تو اپنے ہمراہ چائے کی ایک پیالی اور ایک سوکھی روٹی دوپہر کے کھانے کے طور پرلے جاتی۔

رات کے کھانے پر بھی اسے سوکھی روٹی اور چائے ہی ملا کرتی تھی۔ پیٹ بھر کر کھانا حاصل کرنے کی خاطر وہ سکول بند ہونے سے تھوڑی دیر پہلے چوری چھپے بھاگ آتی اور قصبے کے باہر چڑیا گھر میں بندروں کے پنجرے صاف کرنے لگتی۔ چڑیا گھر کا منیجر اسے معاوضے کے طور پرتھوڑے سے سینڈوچ دے دیتا۔ موسیقی کے کئی برس مطالعہ اور مشق کے بعد اسے ایک موقع ملا کہ وی آنا کی نامور امپریل کمپنی کی ڈائریکٹر کواپنا گانا سنا سکے۔

اس کا گانا سننے کے بعد کمپنی کے ڈائریکٹر نے اس سے کہا کہ وہ کبھی ایک کامیاب مغنیہ نہیں بن سکتی۔ اس کی نہ تو کوئی شخصیت ہے اور نہ ہی خدو خال اچھے ہیں لہٰذا اس کے لیے بہتر ہو گا کہ گانے کا خیال دل سے نکال دے اور سلائی مشین خرید کر لوگوں کے کپڑے وغیرہ سیا کرتے۔ کئی برس بعد جب وہ دنیا کی ایک نامور مغنیہ بن چکی تھی، تو اسے وی آنا کی امپریل اوپرا کمپنی میں لانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ اس کے شان دار اور کامیاب پروگرام پر ڈائریکٹر نے اسے مبارک باد دی اور کہا کہ آپ کا چہرہ کچھ مانوس نظر آتا ہے۔ میں نے آپ کو کہاں دیکھا ہے؟’’جب میں نے اس سے پہلی ملاقات اور سلائی مشین خرید کر لوگوں کے کپڑے سینے کے مشورے کے متعلق بتایا تو وہ بے حد حیران اور شرمندہ ہوا۔‘‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…