کیا آپ کو عجیب و غریب کہانیاں پسند ہیں؟ ذیل میں ایک سچی کہانی درج ہے۔ یہ ایک ننھی لڑکی کی کہانی ہے، جسے سب موٹی کے نام سے جانتے تھے لیکن بعد میں اس نے ایک مغنیہ کی حیثیت سے سارے یورپ میں اپنا لوہا منوایا۔یہ ایک ایسی غریب لڑکی کی کہانی ہے۔ جو اس قدر غریب ہوتی تھی کہ موسیقی سیکھنے کی فیس بھی ادا نہ کر سکتی تھی۔
اس کے باوجود وہ نیو یارک کے میٹرو پولیٹن اوپرا کمپنی میں سب سے عمدہ گانے والی تھی۔1930ء میں یہ لڑکی اپنی آواز کی آزمائش کے لیے کئی دفعہ ریڈیو اسٹیشن گئی۔ لیکن اسے کسی نے ریڈیو پر کوئی پروگرام نہ دیا۔ چار برس بعد امریکہ کے ریڈیائی نقاد اسے ریڈیو کی بہترین نئی دریافت خیال کرتے تھے۔ ایک زمانے میں جب میں کولمبیا ریڈیو اسٹیشن سے اپنے پروگرام نشر کیا کرتاتھا۔ تو مجھے ریڈیو اسٹیشن کے سامعین میں سے ایک خوبصورت لڑکی سامنے والی قطار میں اکثر بیٹھی ہوئی دکھائی دیتی۔ بھوری بھوری آنکھوں والی خوب صورت لڑکی۔ اس کی شخصیت میں ایک قسم کا طلسم تھا۔ جب میں اس سے ملا تو مجھے معلوم ہوا کہ نامور ہیلن جپسن وہی تھی۔ وہ امریکہ کے مشہور اور بہترین فلوٹ نواز جارج پوسل کی بیوی تھی۔ میں نے جارج سے پوچھا کہ کیا ان کی شادی پہلی نظر میں محبت کا نتیجہ تھی۔ اس نے ہاں میں جواب دیا۔ اتنے میں ہیلن جپسن بھی بول اٹھی۔ جی ہاں مجھے پہلی نظر میں جارج سے محبت ہوئی تھی۔ اسے تو معلوم ہی نہ تھا کہ میں کب سے اسے پیار کرتی چلی آ رہی ہوں۔ میں نے برسوں اسے چھپ چھپ کر پیار کیاہے۔ اسے فقط ایک نظر دیکھنے کے لیے اس کے گھر کا طواف کیا کرتی تھی۔ جب کبھی میں اسے دیکھ لیا کرتی تو ڈر کے بھاگ جایا کرتی۔ میں نے پہلی مرتبہ جارج کو چوتاکالیک میں ایک آرکسٹرا میں دیکھاتھا۔ اس وقت میری عمر فقط بیس برس تھی۔
اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ جارج ان دنوں بتیس برس کا تھا۔ میری اس زمانے میں کوئی حیثیت نہ تھی لیکن جارج اپنے پیشے کے عروج پر تھا۔ مجھے اس سے اس قدر محبت تھی کہ جب اس نے کسی راستے سے گزرنا ہوتا تو میں درختوں کی اوٹ میں چھپ کر اسے دیکھتی رہتی۔ میں نے ہیلن جپسن سے پوچھا کہ اسے اپنے بارے میں سب سے زیادہ حیرت ناک کون سی بات محسوس ہوتی ہے۔
اس نے جواب دیا کہ بہت سے لوگ یہ جان کر بے حد حیران ہوتے ہیں کہ میں بیاہتا ہوں اور میری ایک بچی بھی ہے۔ان کی بچی بھی وہاں موجود تھی۔ جب میں نے اس سے اس کا نام پوچھا تو کہنے لگی کہ میں تین برس کی ہونے والی ہوں۔یہ تو صحیح ہے، لیکن تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے دوبارہ اس سے پوچھا ’’میں تین برس کی ہونے والی ہوں۔‘‘ بچی نے پھر اسی لہجے میں جواب دیا۔
’’یہ تو میں نے جان لیا‘‘ مگر تمہارا نام کیاہے؟ مجھے میری سال گرہ پر آئس کریم اور کیک ملیں گے۔ بچی اپنی بنیادی بات پرجمی رہی۔جب میں نے ہیلن جپسن سے پوچھا کہ کیا وہ توہم پرست بھی ہے تو اس نے جواب دیا جی نہیں، میں میٹرو پولٹین میں اپنے کمرے میں اکثر سیٹی بجاتی رہتی ہوں۔ حالانکہ گویوں کی بڑی تعداد سیٹی بجانے کو اچھا شگون نہیں سمجھتی۔ اس کے باوجود وہ توہم پرست ہے۔
جب ہسپتال میں اس کے یہاں بچی پیدا ہوئی تو اس نے ایک ریشمی دھاگے میں اس کے نام کا کاغذ پر کرکے اس کے گلے میں باندھ دیا۔ بعد میں ہیلن جپسن نے وہی دھاگہ ایک لاکٹ میں بند کرکے اپنے گلے میں پہن لیا۔ گاتے وقت وہ ہمیشہ اس لاکٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ یہ توہم نہیں ہے تو پھر کیاہے؟ اس نے جواب دیا یہ ہرگز توہم نہیں ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے۔
اگر ہیلن جپسن نے ایکرون (اوہیو) میں ایک روٹری کلب میں مجھے واپس قدیم ورجینیا لے چلو۔ نہ گایا ہوتا تو ممکن ہے دنیائے موسیقی کی ایک بلند شخصیت بننے کی بجائے ورجینیا لے چلو۔ نہ گایا ہوتا تو ممکن ہے دنیائے موسیقی کی ایک بلند شخصیت بننے کی بجائے وہ آج بھی ایک دکان پر خواتین کاسامان زیبائش فروخت کر رہی ہوتی۔ واقعہ یوں ہے کہ اسے ابتدائے زندگی ہی سے مغنیہ بننے کا جنون تھا۔
اس کی ایک خالہ ایک ورائٹی پروگرام میں کام کرتی تھی۔ اور اپنے پرانے کپڑے ہیلن کو دے دیتی تھی۔ ننھی ہیلن جپسن وہ کاسٹیوم پہن کر اچھلا کودا کرتی اور ہمسائے کے دوسرے بچوں کے ہمراہ ’’تھیٹر کھیلا کرتی‘‘ بعد میں وہ سکول کے ڈرامیٹک کلب کے ترتیب دیے ہوئے چھوٹے چھوٹے کھیلوں میں کام کرنے لگی۔ تعلیم سے فراغت پا کر اسے ایکروں میں ایک دکان پر خواتین کاسامان زیبائش فروخت کرنے کی ملازمت مل گئی۔
اگرچہ اسے ملازمت پسند نہ تھی لیکن موسیقی دیکھنے کے لیے اسے روپے کی ضرورت تھی۔ وہ ہر اتوار کو گرجے میں مذہبی گیت گانے والی ٹولی میں بھی شریک ہو جاتی۔ اس کے علاوہ وہ کلبوں اور دوسرے سوشل اجتماعوں میں بھی گیت سناتی۔ ایک دن ایک تاجر نے اسے روٹری کلب میں ’’مجھے واپس قدیم ورجینیا لے چلو‘‘ گاتے ہوئے سن لیا۔ اسے اپنے اسٹور میں ایک ایسی لڑکی کی ضرورت تھی، جو گراموفون ریکارڈ فروخت کر سکے۔
لہٰذا اس نے ہیلن کو وہ ملازمت دے کر اس کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ سٹور میں بیٹھی وہ کئی کئی گھنٹے اپنے پسندیدہ ریکارڈ بجاتی رہتی اور ان کے ساتھ ساتھ خود بھی مشق کرتی رہتی۔ اس زمانے میں وہ نامور موسیقاروں کے ریکارڈ سن کر پہروں سوچا کرتی کہ کیا وہ بھی کبھی اس زمرے میں شامل ہو سکے گی۔ اسے اپنے اس خیال خام پر اکثر ہنسی آتی اور وہ سوچتی کہ وہ کس قدر پاگل ہے۔ اسی زمانے میں فلاڈیفیا میں موسیقی کے ایک ادارے نے موسیقی کے ایک وظیفے کا اعلان کیا۔
اور شوقیہ گانے والی لڑکیوں کو مقابلے میں شرکت کی دعوت دی۔ کیا وہ بھی اس مقابلے میں شرکت کرے؟ فلاڈیفیا تک جانے میں اس کی ساری پونجی خرچ ہو جاتی تھی۔ اس مقابلے میں حصہ لینے والی دو سو لڑکیوں میں سے ایک وہ بھی تھی۔ فرض کیا اگر وہ ناکام رہتی؟ اس صورت میں اس کے پاس آنے کے لیے ٹکٹ کے پیسے بھی نہ ہوتے۔ اسے پھر کہیں فلاڈیفیا میں ملازمت کرنا پڑے گی۔ لیکن اگر وہ کامیاب ہو گی تو ایک طلسمی دنیا کی دہلیز پر جا کھڑی ہو گی۔
لہٰذا وہ جوا کھیل کر فلاڈیفیا چلی گئی۔ دوسری دو سو لڑکیوں میں سے بعض کی آوازیں اس کی آواز کی طرح صاف، رس بھری اور میٹھی تھی لیکن اس کی آواز میں ایک ایسی چیز تھی۔ جو دوسروں میں نہ تھی اس کی آواز میں سوز تھا۔ وہ اپنے گیت مقبول عام بنا سکتی تھی۔ اسی اثناء میں اسے ایک جج نے دیکھ لیا کہ ہیلن نے اپنا ایک موزہ بڑی صفائی سے رفوکیاہواہے۔ وہ جج ایسی لڑکیاں پسند کرتا تھا جن میں کوئی کام صفائی سے کرنے کی صلاحیت ہو۔
لہٰذا ہیلن جپسن نے مقابلہ جیت لیا۔ ہیلن اور ایک اور لڑکی نے شہر کے مضافات میں کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا۔ انہیں کام پر آنے کے لیے روزانہ چار میل کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا تھا اور سردیوں میں وہ خود کو گرم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے پاؤں پر پاؤں رکھ کر رقصکیا کرتیں۔ وہ شمعیں جلا کر انہیں فرش پر رکھ دیتیں اور انہیں آتش دان تصور کرتیں۔
ان کے پاس خوراک پر خرچ کرنے کے لیے فقط دو شلنگ یومیہ ہوتے تھے لہٰذا وہ ایک چھوٹے سے سٹوو پر اپنا کھانا خود ہی پکایا کرتی تھیں بعض اوقات وہ صرف شوربے پر گزارا کرتیں لیکن وہ گیت گاتیں اور خود کو پیرس میں تصور کرتیں۔ آپ اسے تنگ دستی کہیں گے بالکل نہیں وہ اپنی منزل کی طرف رواں تھیں۔ ہیلن جپسن میں مجھے سب سے زیادہ قابل تعریف یہ بات دکھائی دی کہ دولت اور شہرت نے اس کا دماغ خراب نہیں کیا۔ وہ آج بھی اسی زمانے کی طرح منکسر المزاج ہے۔ جب وہ اپنے والد کے گھر میں برتن اور فرش صاف کیا کرتی تھی۔