منگل‬‮ ، 23 ستمبر‬‮ 2025 

انریکو کا روسو، جب وہ تھیٹر میں گانے آتا تو سامعین اس پر گندے انڈے پھینکتے

datetime 15  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جب 1921ء میں انریکوکاروسو کا اڑتالیس برس کی عمرمیں انتقال ہو گیا تو پوری قوم میں رنج و الم کی لہر دوڑ گئی کیونکہ وہ مغنی اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکاتھا۔ جس کی آواز ہرذی نفس کی روح میں ارتعاش پیدا کردیتی تھی۔ موت کے بے رحم ہاتھوں نے انریکو کاروسو کو دنیاکے ہاتھوں سے چھین لیاتھا لیکن اس کی روح کی گداز تانوں کی یاد اب بھی ہردل میں باقی تھی۔

کام کی زیادتی اور تھکاوٹ کی وجہ سے اسے معمولی زکام ہوا۔ اس نے پرواہ نہ کی اور مسلسل چھ ماہ تک بڑی دلیری سے موت کا مقابلہ کرتارہا۔ ادھر اس کے لاکھوں عقیدت مند خداوند ایزدی سے اس کی صحت یابی کی دعائیں مانگتے رہے۔انریکوکاروسو کی سحر انگیز آواز صرف قدرت ہی کی دین نہیں تھی۔ بلکہ ان تھک محنت اور مسلسل جدوجہد اور عزم کا انعام تھی۔ ابتدا میں اس کی آواز اتنی ہلکی پھلکی اور باریک تھی کہ اس کے ایک استاد نے اسے صاف کہہ دیا کہ تم نہیں گا سکتے، کیونکہ تمہاری آواز کسی کام کی نہیں، ایسے لگتا ہے جیسے جھینگر بول رہے ہوں۔ کئی برسوں تک یہ کیفیت رہی کہ وہ جب تان اوپر اٹھاتا تو اس کی آواز پھٹ جاتی اور گاتے وقت اس کی حرکات اور اداکاری تو اس قدر گئی گزری تھی کہ ایک بارلوگ اس پر آوازیں کسنے سے باز نہ آئے۔ بہت کم لوگوں کی زندگی میں انریکو کاروسو جیسی کامیابی نصیب ہوئی ہو گی۔ وہ مرنے کے باوجود ہمیشہ زندہ رہے گا لیکن جب اس کی شہرت کا آفتاب نصف النہار پرتھا تو اس وقت بھی جب اسے اپنی پرانی زندگی کے روح فرسا واقعات یاد آتے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ وہ ابھی پندرہ برس کاتھا کہ اس کی والدہ انتقال کر گئی۔ اس کی موت کا کاروسو کواتنا قلق ہوا کہ جہاں بھی جاتا۔ اس کی تصویر اپنے پاس رکھتا۔ اس کی ماں نے اکیس بچوں کو جنم دیاتھا۔ ان میں سے اٹھارہ نے بچپن ہی میں دنیا سے موڑ لیا۔

صرف تین باقی بچے۔ وہ ایک معمولی دیہاتی عورت تھی۔ جس نے اپنی زندگی میں مشکلات اور مصیبتوں کے سوا کچھ نہ دیکھا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح اس نے یہ اندازہ کر لیاتھا کہ اس کے ایک بیٹے کے اندر عظیم صلاحیتیں خوابیدہ ہیں اور اس کے نزدیک ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی ہیچ تھی۔ کاروسو کہا کرتا تھا کہ ’’میری ماں محض اس لیے ننگے پاؤں چلتی تھی کہ میں گا سکوں۔ یہ کہتے ہوئے ہمیشہ اس کی آنکھو میں آنسو آ جاتے تھے۔

وہ مشکل سے دس برس کا ہواتو اس کے باپ نے اسے مدرسے سے اٹھا کر ایک کارخانے میں ملازم کرا دیا۔ ہر شام کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد کاروسو موسیقی کا سبق لیتاتھا اکیس برس کی عمر تک وہ اس کارخانے میں بھاڑ جھونکتا رہا۔ انہی دنوں اسے ایک قریبی کافی ہاؤس میں گانے کا کام مل گیا۔ کبھی کبھار وہ کسی حسین و جمیل خاتون کے گھر کی کھڑکی کے نیچے بھی معمولی معاوضے پر گانا گا دیا کرتا تھا۔

ایسی خواتین کے بھدی آواز والے عاشق بڑی دلیری سے چاندنی راتوں میں کھڑکیوں کے نیچے کھڑے ہوکر اپنے ہونٹوں اور ہاتھوں کو ہلا کر اداکاری کرتے۔ اور ان کے پاس ہی کسی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوا کاروسو اپالو کی سی مدھر لے میں ایسے گیت گاتا، جو روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے تھے۔ بالآخر جب اسے پہلی بار تھیٹر میں گانے کا موقع میسر آیا تو وہ ریہرسل میں اتنا گھبرا گیا کہ اس کی آواز پھٹ گئی، اوریوں سنائی دینے لگا جیسے کوئی شیشے کے ٹکڑے زمین پر پٹخ رہا ہو۔

اس نے کئی بار کوشش کی لیکن ہرتان پہلے سے زیادہ مایوس کن ثابت ہوئی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوا تھیٹر سے باہر نکل آیا۔ جب اس نے سچ مچ تھیٹر کی سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو حواس باختہ ہوگیا۔ وہ اتنا گھبرا گیا کہ ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بلیوں کی آوازیں نکال نکال کر اس کی آواز کو دبا دیا۔ ان دنوں تھیٹر والے صرف اس کا امتحان لے رہے تھے۔ ایک شام تھیٹر کا سب سے بڑا مغنی اچانک بیمار پڑ گیا۔ کارسو غیر حاضر تھا۔

گلیوں اوربازاروں میں اسے ڈھونڈنے کے لیے ملازم دوڑائے گئے۔ آخر کار وہ ایک شراب خانے میں بیٹھا ہوا مل گیا۔ وہ پوری تیزی سے تھیٹر کی طرف بھاگا۔ جب وہ جوش و خروش سے بھاگتا ہوا وہاں پہنچا تو اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ ڈرائینگ روم کی گھٹن اور شراب کے نشے نے اس کے دماغ کو اور زیادہ گرما دیا۔ یکایک اسے ساری دنیا گھومتی ہوئی دکھائی دی اور جب کاروسو نے سٹیج پر قدم رکھاتو ہال میں قیامت آ گئی۔ جب اس نے گانا ختم کیاتو لوگوں نے گندے انڈے پھینک کر اسے خراج عقیدت پیش کیا۔

اگلے روز وہ اس قدر دل برداشتہ ہو گیا کہ اس نے اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا۔اس کی جیب میں صرف اتنے پیسے تھے کہ جن سے صرف ایک شراب کی بوتل آ سکتی تھی۔ وہ صبح سے بھوکا تھا اور جس وقت جام پر جام چڑھاتے ہوئے وہ خود کشی کے منصوبے باندھ رہا تھا تو شراب خانے کا دروازہ کھلا اور تھیٹر کا ایک ملازم اندر داخل ہوا۔ ’’کار سو‘‘ وہ چلایا۔ کارسو! جلدی آؤ۔ لوگ بڑے گویے کا سانا نہیں سنتے۔ انہوں نے آوازیں کس کر اسے بھگا دیا۔

وہ کہتے ہیں کارسو کو بلاؤ۔‘‘ مجھے بلاتے ہیں ’’کارسو چلایا‘‘ کیا بکواس ہے بھئی۔ وہ تو میرا نام بھی نہیں جانتے۔ ’’واقعی وہ تمہارا نام نہیں جانتے، لیکن وہ تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘ ملازم نے کہا وہ کہتے ہیں کہ اس شراب کو بلاؤ۔ کاروسو مرنے سے پہلے کروڑ پتی بن چکا تھا۔ صرف اپنے گانوں کے گراموفون ریکارڈوں سے اسے 400,000 پونڈ کی آمدنی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود نوجوانی کی مفلسی نے اس کے ذہن پر اتنے گہرے نقوش چھوڑے تھے کہ وہ جو بھی روپیہ خرچ کرتا تھا۔

اپنی ایک چھوٹی سی کتاب میں اس کا پورا پورا حساب رکھتا تھا۔ خواہ وہ جوتے کا تسمہ خریدے یا اپنے کمرے کی سجاوٹ کے لیے ہاتھی دانت کا سامان۔ اس کتاب میں ایک ایک پائی کی تفصیل درج ہوتی۔ اطالوی کاشت کار گھرانے سے توہم پرستی۔۔۔ ورثے میں ملی تھی۔ اپنی موت کے دن تک وہ نظر بند سے بڑا خائف تھا۔ نجومی سے مشورہ کیے بغیر کبھی سمندر پار نہیں جاتاتھا۔ جمعے کے روز نہ تو نیا سوٹ پہنتا تھا۔ نہ کسی سیڑھی کے پاس سے گزرتا تھا۔

اور دنیا کی کوئی طاقت منگل اور جمعے کے روز اسے سفر یا کوئی نیا کام شروع کرنے پر مجبور نہ کر سکتی تھی۔ اسے صفائی کا جنون تھا۔ جتنی بار گھر آتا، جوتے سے لے کر ہیٹ تک، جسم پر پہنی ہوئی ہر چیز تبدیل کرتا تھا۔ خوش الحانی میں کوئی اس کا ہم عصر نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ ڈریسنگ روم میں میک اپ کرتے ہوئے سگریٹ پرسگریٹ پھونکا کرتا تھا۔ جب لوگ اس سے پوچھتا کہ کیا تمباکو نوشی سے اس کی آواز خراب نہیں ہوتی تو وہ خوب قہقہے لگاتا۔

سٹیج پر جانے سے پہلے وہ ہمیشہ شراب میں ملا سوڈا ملا کر پیا کرتا تھا تاکہ گلا صاف ہو جائے۔ اس نے دس برس کی عمر میں سکول چھوڑ دیا تھا۔ اس نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ وہ اپنی بیوی سے کہا کرتا تھا کہ مجھے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں بذات خود زندگی سے سبق لیتا ہوں۔ کتابیں پڑھنے کی بجائے وہ ٹکٹیں اورنایاب سکے اکٹھے کرنے میں وقت گزارا کرتا تھا۔ وہ خاکے اور کارٹون بنانے میں کمال رکھتا تھا اور ہر ہفتہ اٹلی کے کسی نہ کسی رسالہ کو اپنا بنایا ہواکارٹون بھیجا کرتا تھا۔

وہ نیپلز میں پیدا ہوا۔ لیکن جب پہلی بار اس نے گانے کی کوشش کی تو اخباروں نے اس پر شدید نکتہ چینی کی اور لوگ اس کی آواز سے ذرا بھی متاثر نہ ہوئے۔ کاروسو کو اس بات سے بہت دکھ پہنچا اور وہ زندگی بھراس واقعہ کو فراموش نہیں کر سکا۔ اپنی شہرت کے زمانے میں وہ کئی بار نیپلز گیا لیکن لوگوں کے زبردست اصرار کے باوجود کبھی اس شہر میں گانا گانے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ شاید اس کی زندگی کے سب سے مسرت آمیز اور عظیم لمحات وہ تھے۔

جب اس نے اپنی بیٹی گلوریا کو سینے سے لگایا تھا۔ وہ باربار یہی کہہ رہا تھا کہ وہ آج تک اس وقت کے انتظار میں تھا۔ جب یہ بچی برآمدے میں بھاگنے اور اس کے سٹوڈیو کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو جائے ایک روز اٹلی میں جب کاروسو اپنے پیانو کے قریب بیٹھا ہوا تھا تو یہی واقعہ رونما ہوا۔ اس نے اپنی ننھی بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور اشک آلود آنکھوں سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا ’’کیا تمہیں یاد ہے؟۔۔۔ میں صرف اسی وقت کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘ اور اس کے ایک ہفتے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…