ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ بیس برس پہلے کا ذکر ہے کہ انتالیس برس کا چھریرے جسم اور سنجیدہ چہرے والا ایک نوجوان مجھے ملنے میرے مکان پر آیا اور مشرق کی طلسماتی سرزمین پر اپنے عجیب و غریب معرکوں سے مجھے مسحور کرتا رہا۔ سولہ برس سے انتالیس برس کی عمر تک وہ بہت سے میدان جنگ میں کئی دفعہ موت کو دیکھ چکا تھا۔ وہ بغداد اور قسطنطنیہ میں جنگی قیدی رہ چکا تھا۔
وہ میسو پوٹمیا کے گرم صحراؤں میں ترکوں سے لڑ چکا تھا اور فلاڈرز کے دلدلی کھیتوں میں جرمنوں سے مقابلہ کر چکا تھا۔ اس نے ’’خونی سال‘‘ نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کے باوجود لارنس آف عریبیہ کی طرح میں نے اس کا انداز گفتگو بڑا شستہ پایا۔ وہ جنگ کے بجائے شاعری اور فلسفے میں زیادہ دل چسپی لیتاتھا۔بیس برس کی فوجی ملازمت کے بعد بھی فرانسس ژیٹس براؤن نے کچھ پس انداز نہ کیاتھا۔ اس نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ مستقبل میں کیا کرنے والاہے؟ وہ اپنی زندگی کے متعلق بالکل متفکر نہ تھا۔ مشرق میں رہ کر وہ مشرقی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ اس نے مشرق کی بزرگ ہستیوں اور فلسفے کا بغور مطالعہ کیاتھا اور اسے راہ نجات کے اسرار معلوم ہو گئے تھے۔ہم اور آپ کی طرح اس نے فقط ایک زندگی نہیں گزاری تھی۔ اپنی انتالیس سالہ زندگی میں وہ کئی زندگیاں گزار چکا تھا۔ آخر اس نے اپنی جدوجہد سے پر زندگی کی داستان ایک کتاب کی شکل میں لکھی اور اس کا نام ’’ایک بنگالی جادہ پیما کی زندگیاں رکھا۔‘‘ یہ کتاب 1930ء کی سنسنی خیز کامیابی تھی۔ اس کتاب کی کہانی پر ہالی ووڈ نے ایک فلم بنائی، جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئی اور اس نے بہت سا نفع کمایا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہالی ووڈ کی دوسرے سوانح حیات فلموں کی طرح اس میں بھی بعض حقائق سے گریز کیاگیاتھا۔ فرانسس ژیٹس براؤن فقط ا نیس برس کاتھا کہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔
وہ ’’رائل بنگال لانسرز‘‘ یونٹ کاممبر تھا۔ ’’رائل بنگال لانسرز‘‘ جس پر برطانوی فوج کو ناز تھا۔ وہ چیدہ چیدہ ساپیوں کایونٹ تھا۔ اور جن کی تنخواہ نہ ہونے کے برابر تھی اور انہیں اپنے گھوڑے اور دوسرا سامان بھی خود ہی خریدنا پڑتاتھا لیکن وہ ہندوستان میں کسی نفع کے پیش نظر نہ گئے تھے۔ ایثار کا جذبہ انہیں وہاں لایاتھا، وہی جذبہ جو کچز، چائینی گارڈن، سرفرانسس ڈریک اور سروالٹر ریلے کو زمین کے دوسرے کنارے تک لے گیا تھا۔
وہ صبح پانچ بجے اٹھتے اور دھوپ میں اس وقت تک ڈرل کرتے رہتے، حتیٰ کہ گرمی سے ان کی رائفلوں کا لوہا تپنے لگتا اور انہیں ہاتھ میں پکڑنا ناقابل برداشت ہو جاتا۔ ان کی تفریح یہ تھی کہ گرمیوں کی جان لیوا سہ پہروں میں پولیو کھیلا کرتے تھے۔ گرمی اور ملیریا سے ان کے جسموں کا برا حال ہوجاتاتھا۔ لیکن فرانسس ژیٹس براؤن نے مجھے بتایا کہ ہندوستان کے تمام کھیلوں میں سب سے زیادہ ولولہ انگیز اور خطرناک کھیل سؤروں کا شکار تھا۔
انہیں فقط ایک نیزے سے سؤروں کا شکار کرنا ہوتاتھا۔ زخمی سؤر جس قدرخطرناک جانور ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی دوسرا جانور ہو۔ اس کے اندر شیر جیسی ہمت اور ایک تیز رو گھوڑے جیسی پھرتی آ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں اس کی دسترس میں آ جانا یقینی موت ہے۔ میں نے ژیٹس براؤن سے پوچھا کہ وہ کوئی ایسا واقعہ سنائے، جس میں وہ موت کے منہ سے بال بال بچا ہو۔ اس نے بتایا کہ سؤر کے شکار دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہواتھا۔
اس نے اور اس کے آدمیوں نے مل کر ایک بڑا سؤر جھاڑیوں سے نکالا۔ جنگلی سؤر کھیتوں کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا اور اس کی سونڈ دھوپ میں چمک رہی تھی۔ ژیٹس براؤن گھوڑے پر سوار ہو کراس کے تعاقب میں چل پڑا۔ جونہی اس نے اس کے جسم میں نیزہ مارا۔ اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ گھوڑے کا سارا بوجھ ژیٹس براؤن کے اوپر آ رہا۔ اس نے گھوڑے کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ ادھر نیزے سے زخمی سؤر نیزے کی انی اپنے جسم سے نکالنے میں مصروف تھا۔
اتنے میں گھوڑا چھلانگ لگاکر کھڑاہو گیااور اس کے ساتھ ہی ژیٹس براؤن، اب تک زخمی سؤر بھی نیزے سے نجات حاصل کر چکاتھا۔ جونہی سؤر اس کی طرف بڑھا۔ وہ بھاگ کر ایک قریبی درخت پرچڑھ گیا اور جب تک اس کے آدمی اس کی مدد کو نہیں پہنچے وہ وہیں بیٹھا رہا۔ گھوڑے پر سے گرتے ہی اس کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ اسے اور بہت سی چوٹیں آئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد سؤر بھی اپنے زخم کی تاب نہ لا کر مرگیا۔ فقط گھوڑے کو کوئی چوٹ نہ آئی تھی۔
اور وہ بڑے آرام سے گھاس چرنے میں مصروف تھا۔ لیکن میرے خیال میں ژیٹس براؤن کی حیرت ناک زندگی میں سب سے عجیب و غریب واقعہ ہے۔ جب اس نے ایک خاتون کاروپ دھارا تھا۔ وہ میسو پوٹامیہ میں ترکوں کے خلاف لڑ رہا تھا۔ ترکوں نے اسے قید کرکے کیڑوں مکوڑوں سے بھری جیل میں ڈال دیا۔ وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن شہر سے باہر نہ نکل سکا۔ ترک بڑی تندہی سے اسے تلاش کر رہے تھے۔
ظاہر ہے وہ ایک انگریز افسر کی تلاش میں تھے اور وہ ایک ایسی جرمن خاتون پر کس طرح شبہ کر سکتے تھے جو ایک کیفے میں ایک روسی شہزادے کو ملنے آیا کرتی تھی۔ ترکی حکومت اس روسی شہزادے کی بھی نگرانی کر رہی تھی لیکن جذباتی ترک کسی کے معاشقے میں دخل اندازی کی کوشش نہیں کرتے۔ لہٰذا جب ژیٹس براؤن اس جرمن خاتون کابھیس بدل کر روسی شہزادے کو ملنے اس کیفے میں آیا تو موخر الذکر اسے دیکھ کر اپنی کرسی سے اچھل پڑا۔
وہ بڑے احترام سے جھکا اور اس کے ہاتھوں پر بوسہ دینے لگا۔ ترکی جاسوس ایک دوسرے کودیکھ کر مسکرانے اور اپنے شانے ہلانے لگے۔ آخر ایک مشتبہ روسی شہزادہ بھی رومانس کا حق دار ہوسکتا ہے۔ لیکن جرمن خاتون کے بھیس میں بھی وہ شہر سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آخر اس نے اپنی قومیت اور جنس تبدیل کی اور ایک ہنگری کاری گر بن گیا۔ جسے اسلحہ بنانے والی ایک فیکٹری سے جواب مل گیاتھا۔
اس نے اپنی مونچھیں بڑھا کر ان کا رخ اوپر کی جانب موڑ لیا اور اتنا عجیب و غریب لباس پہنا کہ بالکل ایک کامیڈین لگتا تھا۔ ترکوں کو کبھی شبہ نہ ہو سکا کہ وہ اصلی یا نقلی ہنگری کاریگر تھا۔ آخر وہ پکڑاگیا اور اسے دوبارہ قید کر دیاگیا لیکن ایک دفعہ وہ پھر وہاں سے بھاگ نکلا۔ یونانیوں کا ایک گروہ قید خانے کے باغ میں کھانا کھانے کے لیے آیا کرتاتھا۔ ایک دن جب وہ باغ سے باہرنکلنے لگے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ وہ شہر کی گلیوں میں سے اتنی متحمل مزاجی کے ساتھ گزر رہاتھا۔
جسے مہاتما بدھ کی پرچھائیں ہو۔ میرے پوچھنے پر کہ اس نے جنگ کے دوران سب سے زیادہ خطرناک منظر کون سا دیکھا تھا۔ اس نے جواب دیا۔ ’’جب میں جنگی قیدی تھا۔‘‘ تو ترکوں نے قیدیوں کے ایک کیمپ تک مجھے پہنچانے کے لیے دو سو میل کا سفر پیدل کرنے پر مجبور کیا۔ راستے میں میں نے ایک ایسا قصبہ دیکھا۔ جس میں ایک انسانی شکل بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ ترکی فوجوں نے آرمینیا کا وہ سارا قصبہ تباہ و برباد کر دیاتھا۔ ہرطرف موت کی خاموشی مسلط تھی۔ خاموش گلیوں میں چند کتے گھوم رہے تھے اور مکانوں کے اوپر گدھ چکر لگا رہے تھے۔