1921ء میں ایک جوشیلا نوجوان پیرس کے بازاروں میں مٹر گشت کر رہا تھا۔ اس کی جیبیں تقریباً خالی تھیں لیکن اس کا دل غصے اور نفرت کے جذبے سے پر تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ اس کے ایک لاکھ پونڈ لوٹ لیے گئے تھے۔ کئی سال پہلے اس کاباپ جو ایک امریکی جیالوجسٹ اور انجینئر تھا۔ روس میں جا کرآباد ہو گیا اور وہاں اس نے تیل دریافت کیا اور دولت مند بن گیا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد روسیوں نے اس کی تمام جائیداد ضبط کرکے اسے کنگال کر دیا اس کا بیٹا اپنی جان بچانے کے لیے پیرس بھاگ گیا اور 1921ء میں وہ اسی جگہ مارا مارا پھر رہا تھا۔ فاقوں اور اس کے درمیان صرف چارپونڈ کا فاصلہ رہ گیاتھا۔آخر تھک ہار کر اس نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور ایک جوئے خانے میں جا کر ایک پونڈ داؤ پر لگا دیا۔ جب اس کے پتے کھلنے لگے تو ایک فرانسیسی نے اس کے پاؤں کو اپنے بھاری کم جوتوں تلے مسل دیا۔ وہ غصے سے بھڑک اٹھا اور اس نے فرانسیسی کو سؤر کے بچے کا خطاب دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ اس سے سب کے سامنے معافی مانگے۔کیا فرانسیسی باشندے نے معافی مانگ لی، جی نہیں! اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ اس ذلت کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھا۔ چنانچہ وہ مرنے مارنے پر اتر آیا۔ اس نے نوجوان کو چیلنج کیا کہ اگر اس میں دم خم ہے تو اس سے لڑ کر دیکھ لے۔ ان کے پاس نہ تو تلواریں تھیں اور نہ پستول۔ اس لیے وہ کلب سے باہر نکل آئے اور بھوکے شیروں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ خوب ہاتھا پائی کے بعد جب دونوں کے چہرے لہولہان ہوگئے تو لوگوں نے انہیں چھڑا دیا۔جب سرپھرا نوجوان جوئے کی میز پر واپس آیا تو وہ حیران و ششدر رہ گیا۔ جوئے کی ساری رقم اس کے قدموں پرتھی۔ جس وقت وہ فرانسیسی باشندے سے ہاتھا پائی میں مصروف تھا۔
جوئے خانے کے اندر داؤ پر لگائی ہوئی اس کی رقم میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ جوئے خانے سے باہر نکلتے ہوئے اس کی جیب میں پورے دو ہزار پونڈ تھے۔ اس ہاتھا پائی نے اس کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ اس کے علاوہ اور بھی لاکھوں افراد اس حادثے سے اثر انداز ہوئے۔ آپ پوچھیں گے کیسے؟ کیا آپ کو برج کھیلنے کا گل برسٹن طریقہ آتا ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ اگر جوئے خانے کے باہر وہ ہاتھا پائی نہ ہوتی تو شاید گل برسٹن طریقہ کبھی دریافت نہ ہوتا۔
جب ایلی گل برسٹن فرانسیسی باشندے کے ساتھ ہاتھ پائی سے فارغ ہونے کے بعد جوئے خانے کی طرف واپس آ رہا تھا تو وہ اس بات کا مصمم ارادہ کر چکا تھا کہ وہ فوج میں بھرتی ہو کر اپنی جائیداد واپس لینے کی کوشش کرے گا لیکن یکایک دو ہزار پونڈ مل جانے کے بعد اس نے فوج اور جنگ کا خیال دل سے نکال دیا۔ روسی حکومت کے خلاف ایک لاکھ پونڈ کا دعویٰ دائر کرنے کے بعد اب وہ ناول نگار یااقتصادیات کا پروفیسر بننے کے ارادے باندھنے لگا۔
یہ 1921ء کی بات ہے۔ ان دنوں گل برسٹن تاش کا نکٹا کھلاڑی تھا مگر اب وہ برج کے کھیل سالانہ ایک لاکھ پونڈ، ہفتہ وار دو ہزار پونڈ کماتا ہے۔ وہ سال میں چھ ہزار پونڈ محض ان سوالات کے جوابات بھیجنے پر صرف کرتا ہے جو برج کے شوقینوں کی طرف سے اس سے پوچھے جاتے ہیں۔ اس کے اسسٹنٹ بغیر کسی معاوضے کے ہرسوال کا جواب دیتے ہیں۔ کنٹریکٹ برج کے سب سے بڑی کھلاڑی گل برسٹن کا باپ ایک مذہبی آدمی تھا۔
جو کہا کرتاتھا کہ تاش کھیلنا بہت بڑاگناہ ہے اورتاش کے پتے شیطان نے دریافت کیے ہیں۔ کارل مارکس اور ٹالسٹائی کاعقیدت مند ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ اشتراکی نظریات کاحامی رہا ہے حتیٰ کہ جب وہ روس کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھا تو اس نے اپنے دوسرے ہم جولیوں سے مل کر ایک خفیہ انقلابی کمیٹی بنا رکھی تھی۔ انہی دنوں ایک بار وہ اپنے پاس پورٹ پر سوئٹزر لینڈ گیااور وہاں سے ایک بالشویکی اخبار کے بہت سے شمارے سمگل کرکے لے آیا۔
یہ اخبار لینن کی زیر ادارت جنیوا میں چھپتا تھا اور روس میں اس کا داخلہ ممنوع تھا۔ امریکہ پہنچنے پر اس نے کوشش کی کہ اسے فلسفہ اور سوشیالوجی پڑھانے کا موقع مل جائے لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی پھر اس نے کوئلے کا کاروبار کرنا چاہا، لیکن اس میں بھی مار کھائی۔ پھر اس نے کافی تجارت شروع کی لیکن اس میں بھی سخت نقصان اٹھایا۔ آخر کار ہرطرف سے ناکام ہونے کے بعد وہ سوشلسٹوں کے ایک گروپ کو فرانسیسی ادب پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ایک موسیقار بھائی کے منیجر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔
اس وقت اسے کبھی اس بات کا خیال نہ آیا تھا کہ وہ برج سکھانے کی کوشش کرے۔ یہ سچ ہے کہ وہ تاش کا معمولی کھلاڑی تھا لیکن وہ طبیعت کا بہت ضدی تھا۔ وہ اس قدر سوالات پوچھتا اور اتنی جانچ پڑتال کرتا کہ کوئی شخص اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے تیار نہ ہوتاتھا۔ اس نے برج کے متعلق کئی کتابیں پڑھیں لیکن جب ان کے مطالعہ سے کوئی فائدہ نہ ہواتو اس نے خود اس موضوع پر کتاب لکھنا شروع کردی۔
اگلے چند برسوں میں اس نے برج کے متعلق پانچ کتابیں تصنیف کیں لیکن وہ سب کی سب بے کار تھیں اور اسے خود بھی اس بات کا احساس تھا۔ چنانچہ اس نے ان کتابوں کو چھپوانے کا خیال ترک کرکے ان کے مسودوں کو نذر آتش کر دیا۔ اس کے بعد اس نے جتنی کتابیں لکھیں ان سب کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہواہے اور ان کی کوئی ایک لاکھ جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔ گل برسٹن 1910ء میں پہلی بار امریکہ گیا تھا۔
اس وقت اس کی روسی ماں نے اسے بھیجا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا ژال میں تعلیم حاصل کرے۔ لیکن وہ دسویں کے امتحان میں فیل ہوگیا اور فیل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ انگریزی اچھی طرح نہیں جانتا تھا۔ذرا اندازہ کیجئے کہ وہ ایک امریکی شہری تھا۔ وہ امریکی تاریخ کے تمام ادوار سے باخبر تھا۔ روسی، جرمنی، فرانسیسی،ہسپانوی اوراطالوی زبان روانی سے بول سکتاتھا۔ لیکن وہ انگریزی کے امتحان میں کامیاب نہ ہو سکا۔
چنانچہ ژال سے نکل کر کینیڈا پہنچ کر اس نے ریلوے میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اس جگہ اسے مزدوروں کے اوقات کا حساب رکھنا پڑتا تھا لیکن اپنے کام کی بجائے اس نے اپنی شعلہ بیان تقریروں سے مزدوروں کو بتایا کہ کمپنی والے انہیں بہت کم مزدوری دیتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نے فتنہ کھڑا کیا۔
ہڑتال کرائی اور بالآخر دھکے کھا کر ملازمت سے نکال دیاگیا۔پھر قریبی قصبے تک پہنچنے کے لیے اسے دو سو میل کا سفر پیدل طے کرناپڑا۔ راستے میں وہ گھرگھر جا کر بھیک مانگتا اوراپنا پیٹ پالتا رہا۔ بہت ممکن ہے کہ اکثر عورتیں جو اب گلبرسٹن طریقے سے تاش کھیلتی ہیں۔ اس عظیم کھلاڑی کے تنگ دستی کے دنوں میں یہ جانے بغیر کہ وہ کون ہے اسے سینڈوچز اور گرم کافی دے چکی ہوں۔