ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ ایڈی ریکن بیکر کی داستان حیات رقم کرتے ہوئے مجھے سرما لکم لکم کیمپ بل کی باتیں یاد آ گئی ہیں، کیونکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک عشائیے میں مجھے ان دونوں شخصیات کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملاتھا۔ ان دونوں شخصیات کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملاتھا۔ ان دونوں کی بہت سی عادات مشترک تھیں۔ دونوں خاموش طبع اور خوش گفتار ہونے کے علاوہ ’’تیز رفتاری‘‘ کے جنون میں گرفتارتھے۔
مجھے علم ہے کہ ریکن بیکر نے تو ریسنگ کے خطرناک کھیل کو محض اس لیے اپنایا تھا کہ وہ مالی مشکلات کا شکار تھا مگر سرمالکم لکم کیمپ بل نے ایسا کیوں کیا؟ وہ تو کھاتا پیتا آدمی تھا، اور اسے دولت کی کوئی ہوس نہ تھی۔پھر اس نے ریسنگ کیوں شروع کی؟ شہرت یا عظمت حاصل کرنے کے لیے لیکن کیمپ بل کا جواب نفی میں ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے تو محض تفریح کے لیے اس کھیل کو اپنایا تھا۔‘‘ اس کے بعد میں نے ایڈی ریکن بیکر کی طرف دیکھا اور سوال کیا کہ سرمالکم کی ریس دیکھ کر اسے کتنی بار لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ کیونکہ سرمالکم جس تیز رفتاری سے کار دوڑاتا ہے۔ اسے دیکھ کر تماشائیوں کے دل دھڑکنے لگتے ہیں اور ریکن بیکر نے جو بذات خود بھی کاروں کی کوئی دو سو ریسیں جیت چکا تھا۔ یہ جواب دے کر مجھے حیرانی میں ڈال دیا کہ میں نے اسے کبھی کار دوڑاتے نہیں دیکھا اور سچ پوچھو تو دیکھنابھی نہیں چاہتا۔ کم از کم میرا اندازہ تو یہی ہے کہ وہ جب دوڑ میں شریک ہوتا ہے تو موت اس کے سر پرمنڈلا رہی ہوتی ہے پتہ نہیں وہ کیسے بچ جاتا ہے۔ جس وقت میں یہ انٹرویو قلم بند کر رہاتھا کسی انسان نے روئے زمین پر اتنی تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ تین سو میل فی گھنٹہ، پانچ میل فی منٹ، نیو یارک سے سان فرانسسکو تک دس گھنٹے میں۔
یہ سچ ہے کہ چار اور آدمیوں نے بھی 200 میل فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار سے کاریں دوڑائی تھیں۔ یعنی سی گریوو، لوک ہارٹ یا کیچ اور بالیل۔۔۔ لیکن یہ سب کے سب انہی دوڑوں میں لقمہ اجل بن کر میدان چھوڑ چکے تھے اب صرف کیمپ بل باقی رہ گیاتھا۔ سچ پوچھیے تو کیمپ بل فولاد کا بنا ہوا تھا وہ کبھی پریشان نہیں ہوا۔ کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ جب ریس ختم ہو جاتی ہے تو وہ اتنے اطمینان کے ساتھ کار سے باہرنکلتا، جیسے کوئی شخص دفتر سے گھر آیا ہو۔
جب کیمپ بل کی عمر سولہ سال کی تھی تو اس نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ وہ بائیسکل ریسر بننا چاہتا ہے۔ اس کے باپ نے غصے میں اپنا سر پیٹ لیا اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے بیٹے کولندن کی مشہور بیمہ کمپنی لدیڈز میں کلرک رکھوا دیا۔ سرمالکم کیمپ بل نے مجھے بتایا کہ وہ پورے دو سال اس دفتر میں کام کرتا رہا اور اسے کبھی ایک پنس نہ ملا۔ تیسرے سال بیمہ کمپنی والے اسے کچھ نہ کچھ تنخواہ دینے پر رضا مند ہو گئے اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اس مشہور ادارے کے ڈائریکٹروں میں شامل ہو گیا۔
صرف انیس برس کی عمر میں اسے یہ بات سوجھی کہ انگریزی اخباروں کا ہتک عزت کے دعوؤں کے خلاف بیمہ کیاجائے۔ امریکہ کی نسبت انگلستان میں ہتک عزت کے قوانین بہت سخت ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں سرمالکم کیمپ بل ملک بھر کے تمام اخباروں کو اپنا ممبر بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی کاروبار کی بدولت اس نے اکیس سال کی عمر میں اچھی خاصی دولت پیدا کر لی۔ پھر یکایک اس نے موٹر سائیکلیں اور کاریں خرید خرید کر دوڑوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
اس نے تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑنے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے پچاس ہزار پونڈ سے زیادہ خرچ کیے۔ اس نے کسی ایسی طویل شاہراہ کی تلاش میں جس پر وہ تیز رفتاری کے ساتھ اپنے شوق کی تکمیل کر سکتاتھا۔ ہزاروں میل کا سفر کیا۔ وہ ڈنمارک، صحرائے اعظم، جنوبی افریقہ اور فلوریڈا گیا لیکن بعد میں اسے یہی معلوم ہوا کہ دنیا میں ریسنگ کی سب سے بہترین شاہراہ اوٹاہ میں ہے۔۔۔ وہ جگہ جہاں آج سے کوئی ایک کروڑ سال پہلے نمکین جھیلیں ہوا کرتی تھیں۔
ایک بار وہ ڈنمارک میں ایک ریس میں حصہ لیتے وقت ایک سو چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کار دوڑا رہاتھا کہ یکایک کارکااگلا ٹائرپھٹ گیا۔ کار کا رخ سڑک کے کنارے کی طرف مڑ گیا۔ جہاں تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کم سن لڑکا ہلاک ہوگیا اور کار رکتے رکتے بھی ایک میل کا فاصلہ طے کر گئی۔ سرمالکم کیمپ بل نے مجھے بتایا کہ اس کی زندگی کا سب سے زیادہ حیران کن حادثہ پہلی جنگ عظیم کے دوران پیش آیا۔ ان دنوں وہ ہوا باز کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔
اور رودبار کے اوپرسے پرواز کرتے ہوئے مغربی محاذ کی طرف جایا کرتاتھا۔ ان دنوں اسے ایسے ایسے جہاز اڑانا پڑے جو کبھی اس نے زندگی بھر نہیں دیکھے تھے۔ اس نے ایسی جگہوں پر جہاز اتارے جو اوپر سے دکھائی بھی نہ دیتی تھیں۔ بعض اوقات پرواز کے دوران وہ جرمنی کے جہازوں کے نرغے میں پھنس جاتا، جرمن ہوا باز بادلوں سے نکل کر اس کے جہاز پر لپکتے اور اس پر مشین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ کرتے لیکن اس کے باوجود وہ چار سال تک یہی کھیل کھیلتا رہا اور اسے خراش تک نہ آئی۔
لیکن کیمپ بل کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ جزیرہ کو کس میں ہواتھا۔ اس نے اس کارنامے کے متعلق ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اس جزیرے میں سرمالکم کیمپ بل ایک گم شدہ خزانے کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ جزیرہ کو کس دنیا بھر میں سب سے زیادہ اکتا دینے والی جگہ ہے۔ وہاں آپ کو نہ تو کوئی مکان دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی انسان۔ اس جزیرے کے باشندے دن کے وقت پہاڑیوں میں چھپے رہتے ہیں۔
رات کو جب وہ جھاڑیوں سے نکل کر پانی کے کنارے پرآتے ہیں تو اس وقت بھی یوں چپ سادھے ہوتے ہیں کہ جیسے پام کے درختوں کے سائے ہوں۔ کسی سفید فام کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ مکڑی، چیونٹیاں اور کیڑے مکوڑے یہی اس جزیرے کی کل کائنات ہیں۔ یہاں مکھیاں اور مچھر منڈلاتے رہتے ہیں اور آس پاس ویل مچھلیاں پانی سے سر نکال نکال کر اداس ماحول کا نظارہ کرتی رہتی ہیں۔
خزانے کی تلاش میں سرمالکم کیمپ بل کو ایک چھوٹی سی ندی سے ہوکر ایک بہت بڑے پتھر میں دراڑ ڈھونڈنا تھی۔ اسے بتایاگیاتھاکہ اس دراڑ میں کوے کے پر کو چابی کی طرح گھمانے سے پتھر دروازے کی طرح کھل جائے گا۔ اور اس کے بعد اندر داخل ہوتے ہی اسے بحری قزاقوں کاگم شدہ خزانہ مل جائے گا۔ سونا اور اشرفیاں، الہٰ دین کاخزانہ۔ ایک روز جب وہ خاردار جھاڑیوں سے بچتا، اٹھتا بیٹھتا، رینگتا، دوڑتا راستہ طے کر رہا تھا، تو اس نے محسوس کیا کہ ہوا کارخ شمال کی طرف ہے۔
اسے بھی اسی سمت سفر کرنا تھا۔ چنانچہ اس نے اور اس کے ساتھی نے فیصلہ کیا کہ جھاڑیوں کو آگ لگا کر چلنے کے لیے راستہ بنایاجائے۔ اس نے دیا سلائی جلائی۔ فوراً ہی جنگل میں آگ لگ گئی اور صرف پانچ منٹ میں پورا جنگل آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حواس باختہ ہوگیاکہ شعلے چاروں سمت لپک رہے ہیں۔ وہ فوراً جھیل کے کنارے چت لیٹ گیا، ہزاروں ایکڑ لمبا چوڑا جنگل آتش زدگی کی زد میں تھا اورشعلے تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف لپک رہے تھے کچھ دیر کے لیے اتنی گرمی ہوگئی کہ اس نے محسوس کیاکہ اگلے لمحے اسے پانی میں کودنا پڑے گا۔
جہاں وہ کسی نہ کسی لمحہ آدم خور مچھلی کا لقمہ بن جائیں گے لیکن پام کے درخت اتنے سرسبز تھے کہ انہیں آگ نہ لگی اس طرح اس کی جان بچ گئی۔ گم شدہ خزانے کی تلاش میں تین ہفتے سرگرداں رہنے کے بعد سرمالکم کیمپ بل قزاقوں کی دولت کے انعام کے طورپر زخمی پاؤں، ہاتھوں کے ٹوٹے ہوئے ناخن اور مجروح پیٹھ دکھا سکتاتھا۔ وہ انگریز کی بجائے کوئی مفرور مجرم دکھائی دیتا تھا۔
تھکا ماندہ، دل برداشتہ اور بیمار وہ گھر جانے کے لیے بے چین تھا۔ یہ کہانی سنانے کے بعد سرمالکم کیمپ بل نے مجھے کہا کہ وہ ایک بار جزیرہ کو کس جائے گا اوراگر وہاں کوئی گم شدہ خزانہ ہے تو اسے ضرور تلاش کرے گا۔ ’’آپ کو شاید علم نہیں‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔ ’’میں ذرا سے کارنامے کے لیے نصف دنیا کی خاک چھان سکتا ہوں۔‘‘