ہفتہ‬‮ ، 05 جولائی‬‮ 2025 

فلورنز زیگ فیلڈ،اسے خوب صورت لڑکیوں کے نام، ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر سب سے زیادہ یاد تھے

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بیس سال تک ’’زیگ فیلڈ فولیز‘‘ براڈوے کی سٹیج پر تماشائیوں کا محبوب بنا رہا۔ دنیا میں آج تک کسی کھیل یا تماشے نے نہ تو اتنی کامیابی حاصل کی تھی۔ کھیل سے نہ کبھی اتنا منافع ہواتھا اورنہ ہی کھیل میں اتنا روپیہ برباد کیاگیاتھا۔فلورنز زیگ فیلڈ کو اتنی خوبصورت لڑکیوں کے ٹیلی فون نمبر زبانی یاد تھے کہ کسی اور کو نہیں ہوسکتے۔ اس کی ڈائری میں جسے اس نے خوب صورتی کی بیاض کا نام دے رکھا تھا۔

ہزاروں حسین و جمیل لڑکیوں کے نام، پتے اور ٹیلی فون نمبر درج تھے۔ اس کی تنقیدی نظروں کے سامنے ہر روز حسن کی پچاس ساٹھ دیویاں گزرتی تھیں۔اسے اس بات پر بہت فخر تھا کہ اسے امریکی دوشیزاؤں کے حسن کو دوبالا کرنے کا والد کہا جاتا تھا۔ وہ سچ مچ اس لقب کا مستحق تھا۔ اکثر اس کی نگاہ انتخاب ایسی معمولی لڑکی پر پڑتی، جس کی طرف دوبارہ دیکھنے کی کوئی مرد زحمت بھی گوارا نہ کرتا تھا مگر وہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے جاذبیت اور حسن کی شکل دے کر اسٹیج پر لے آتا تھا۔زیگ فیلڈ کے سٹیج پہنچنے کے لیے جسمانی تناسب اورجاذبیت، دونوں چیزیں اتنی ہی ضروری تھیں، جتنی بیرون ملک جانے کے لیے پاسپورٹ کی۔ حسن کی شمع وہ خود منور کر لیتا تھا۔ زیگ فیلڈ ایشیائی شہنشاہوں کی طرح فضول خرچ تھا۔ وہ کپڑے خریدنے پر بے انتہا روپیہ خرچ کرتا تھا۔ ہندوستان، یورپ اور ایشیا کا اچھے سے اچھا لباس خریدنے کے لیے بازار کے بازار چھان مارتا تھا حتیٰ کہ اس کے لباسوں کے کنارے بھی بہترین ریشم کے بنے ہوتے تھے۔ کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ کوئی عورت اس وقت تک اپنے آپ کو خوبصورت نہیں سمجھ سکتی جب تک اس نے خوب صورت لباس نہ پہن رکھا ہو۔اپنے کھیل میں صرف گوالے لڑکوں کے لیے مناسب لباس نہ ملنے کی وجہ سے اس نے پورے تین ماہ کے لیے ’’شوبوٹ‘‘ کی نمائش ملتوی رکھی۔

پہلے شو پر اس نے 50,000 پونڈ صرف کیے اورپھر محض اس وجہ سے نمائش بند کر دی کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ گوالے لڑکوں کا کردار ادا کرنے والوں کا نامناسب لباس پہننا زیگ فیلڈ کی روایت کے منافی تھا۔اس کی ہر بات میں فضول خرچی کا پہلو نکلتاتھا۔ اگرچہ وہ ہر روز ہزاروں لوگوں سے ملتاتھا لیکن اس نے کبھی ان کے نام خط لکھانے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ اس کے دفتر سے تاریں اورخطوط اتنی بھاری تعداد میں باہر جاتے تھے کہ جیسے موسم خزاں میں درختوں کے پتے آندھی سے گر رہے ہوں۔

وہ جہاں جاتا تار کے فارم اس کے ہمراہ رہتے۔ وہ گرانڈ ریلوے اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوتا اور 125 ویں گلی میں پہنچنے سے پہلے پہلے تار کے فارموں کا پوراپیڈ ختم کر دیتا۔یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ریہرسل کے وقت وہ آرکسٹرا کے احاطے میں بیٹھتا اور قدی روشنیوں کی دوسری طرف کام کرنے والے اداکاروں کے نام تاریں بھیجتا رہتا۔ وہ ان لوگوں کے نام بھی تاریں بھیجتا تھا، جو اس سے اتنے کم فاصلے پر ہوتے کہ وہ انہیں با آسانی آواز دے کر بلاسکتاتھا۔

ایک بار اس نے اپنی کھڑکی سے باہر جھانک کر کھڑکی میں کھڑے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’’کیوں میاں‘‘ میں نے تمہیں تار بھیجا تھا، تم نے جواب کیوں نہیں دیا۔اس کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ ٹیلی فون باکس کے قریب سے گزرے اور کوء درجن بھر لوگوں کو ٹیلی فون کیے بغیر آگے بڑھ جائے۔ وہ ہر صبح اپنے عملے کے ارکان کو ٹیلی فون کرنے کے لیے چھ بجے اٹھ بیٹھتا تھا۔وہ چار پانچ پونڈ بچانے کے لیے گھنٹوں منصوبے بناتا، اور اگلے روز وال اسٹریٹ میں 20,000 پونڈ گنوا دیتا۔

اس نے ایک بار ایڈوین سے 1000 پونڈ ادھار لیا اور اس رقم سے امریکہ سے باہر جانے کے لیے پرائیویٹ ریل گاڑی کرائے پر لی۔وہ عورتوں میں خوب صورتی کا احساس پیدا کرنے میں بلا کی مہارت رکھتا تھا۔ کسی ڈرامے کی افتتاحی رات کو کورس میں حصہ لینے والی ہر لڑکی کو اس کی طرف سے پھولوں کی ٹوکری کا عطیہ ملتا۔ وہ اپنے مشہور ترین اداکاروں کو اوسطاً 1000 پونڈ معاوضہ دیتا تھا۔ عموماً ڈرامے کا موسم ختم ہونے پر ان کے پاس بینک میں اس کے مقابلے میں زیادہ رقم جمع ہوتی۔

جب اس نے اسٹیج کا کاروبار شروع کیا، اس وقت کورس میں حصہ لینے والی لڑکیوں کی اجرت چھ پونڈ فی ہفتہ تھی۔ لیکن اس کے دور شہنشاہی میں یہ اجرت بڑھ کر پچیس پونڈ فی ہفتہ ہو گئی۔زیگ فیلڈ کو سٹیج کی طرف لانے والا واقعہ چودہ برس کی عمر میں رونما ہوا۔ گھر سے فرار ہو کر وہ ’’وائلڈ ویسٹ شو‘‘ میں کرتب دکھانے پر ملازم ہو گیا۔پچیس برس کی عمر میں وہ ’’سینڈو نامی‘‘ ایک شعبدہ باز منیجر کی حیثیت سے خاصی دولت کمانے لگا۔ دو سال بعد وہ لندن میں تھا۔ وہ بالکل کنگال ہو چکا تھا۔

اس نے مونٹی کارلو کے جوئے خانے میں قسمت آزمائی کی اور وہاں اپنا آخری اثاثہ یعنی قمیص بھی گنوا بیٹھا۔لیکن یہ عظیم سرمایہ دار کنگال ہو کر بھی پریشان نہ ہوتا تھا۔ لندن میں بھی جب اسے شدید تنگ دستی کا سامنا تھا، تو وہ حواس باختہ نہ ہوا۔ اس نے اس خستہ حالی میں بھی ایک کارنامہ انجام دیا۔ وہ یہ کہ یورپ کی کامیاب ترین اداکارہ، ایناہلڈ کو اپنے ہمراہ امریکہ جانے پر رضا مند کرلیا۔۔۔ اینا ہلڈ۔۔۔ جو لاکھوں کروڑوں تماشائیوں کی محبوب اور اپنے زمانے کی مے ویسٹ تھی۔

امریکہ کے بڑے بڑے پروڈیوسر کئی بار ایناہلڈ سے درخواست کر چکے تھے کہ وہ نیو یارک آئے۔ اسے بڑے بڑے معاوضے کا لالچ بھی دیا گیا۔ لیکن اسے امریکہ لانے کی سعادت صرف زیگ فیلڈ ہی کو نصیب ہوئی۔ فلورنز زیگ فیلڈ جس کی عمر بمشکل ستائیس برس تھی۔ جس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ جو بالکل غیر معروف تھا۔ یہ سب کچھ ہوا کیسے؟ فلورنز زیگ فیلڈ ایک روز چپکے سے اس کے ڈریسنگ روم میں گیا۔ اسے متاثر کیا، معاہدے پر دستخط کروائے اور اپنے لیے کامیابی کی راہیں ہموار کر لیں۔

اینا ہلڈ ایک قیامت تھی۔ اس نے پورے امریکہ میں تہلکہ مچا دیا۔ فیس پاؤڈر، ہیٹ، سینٹ، گھوڑوں، شرابوں اور سگریٹوں کے نام تک اس کے نام پر رکھے گئے۔ ایک ایک بندرگاہ پر اس کی صحت کے جام نوش کیے جاتے تھے اور ذرا اندازہ کیجئے کہ صرف ایک سال کی دوستی کے بعد فلورنز زیگ فیلڈ نے اسے ازدواجی بندھن میں جکڑ لیا۔ کئی سال بعد وہ جب اینا کو طلاق دے چکا تھا۔ وہ بلی برکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ برکی سے پہلی ملاقات کے بعد ہی اس نے پھولوں کی ایک پوری دکان خریدی،

اور تمام کے تمام پھول تحفتاً اسے بھجوا دئیے اور جب بلی برکی نے اسے بتایا کہ وہ ٹیلی فون پر اس کا شکریہ ادا کرناچاہتی تھی لیکن چونکہ ٹیلی فون لائن مصروف تھی اس لیے ایسا نہ کر سکی تو فلورنز زیگ فیلڈ نے بھی برکی کے لیے ایک خاص ٹیلی فون لگوا دیا۔ تاکہ اس سے دل کھول کر باتیں کر سکے۔فلورنز زیگ فیلڈ کو کشمکش سے الفت تھی۔ وہ اس بات کے حق میں ن ہ تھا کہ کسی مسئلے کا کوئی نہکوئی حل نکال لیا جائے یا کسی معاملے میں کوئی نہ کوئی فیصلہ کر لیاجائے۔

وہ اپنی میز پر نشہ آور گولیوں کا ایک پیکٹ رکھتا تھا اور جب ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا یہ گولیاں اسے واقعی اچھی لگتی ہیں تو اس نے جواب دیا، لو سنو میں یہ گولیاں کیوں کھاتا ہوں۔ ان سب کا رنگ سیاہ ہے۔ اس لیے مجھے یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ مجھے کون سا رنگ اچھا لگتا ہے یا برا؟۔وہ اپنے تھیٹر کے لیے دنیا کے مشہور ترین مزاحیہ اداکاروں کی خدمات حاصل کرتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ خود اور اوورل روجرز جیسے فن کار بھی اسے ہنسنے پر مجبور نہیں کر سکتے تھے۔

اس کا مزاج اس قدر سرد تھا کہ اداکار اسے ’’برف کا پانی‘‘ کہا کرتے تھے۔اس کے مشہور کھیل ’’فولیز‘‘ کی پہلی رات جو عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی تھی اس کی یاد نیو یارک کے لوگوں کے دلوں میں برسوں تک تازہ رہی تھی۔ ہجوم کا یہ عالم تھا کہ سڑکوں سے گزرنا مشکل تھا اور پہلی صف کی نشست کی ایک ایک ٹکٹ تیس پونڈ تھی۔ سٹیج کے پیچھے بھی کم ہنگامہ نہ تھا۔ پردہ کھینچنے والی لڑکیاں اور پیغام بر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ مزاحیہ اداکار اسٹیج پر جانے سے پہلے بار بار اپنے کام کی ریہرسل کر رہے تھے۔

کورس میں شریک ہونے والی لڑکیاں بار بار اپنا میک اپ ٹھیک کر رہی تھیں اور اس ہنگامہ میں صرف ایک شخص پرسکون تھا اور وہ تھا فلورنز زیگ فیلڈ۔ نیو یارک کے باذوق تماشائی قیمتی سے قیمتی اور خوب صورت سے خوب صورت لباس پہن کر کھیل دیکھنے آئے تھے لیکن فلورنز زیگ فیلڈ نے بالکل سادہ لباس پہن رکھا تھا اور تو اور اس نے کرسی پر بیٹھنا بھی مناسب خیال نہ کیا اور گیلری کی سیڑھی پر کھڑا کھیل دیکھتا رہا۔1929 ء میں وال سٹریٹ کے مالی بحران کے ساتھ ہی فلورنز زیگ فیلڈ کی زندگی کے ڈرامے کا اختتام قریب آ گیا۔

اس کے بعد اس عظیم جادو گر میں، جس نے سٹیج پر حسن اور خوبصورتی کے فتنے جگائے تھے۔ اتنی سکت باقی نہ رہی کہ وہ کرایہ تک ادا کر سکے۔ آخری بار ’’فولیز‘‘ پیش کرنے کے لیے اس کے اپنے اداکاروں اور ملازمین نے چندہ جمع کیا تھا۔فلورنز زیگ فیلڈ کا انتقال 1932ء میں کیلے فورنیا میں ہوا۔ موت سے ہم آغوش ہوتے وقت وہ سمجھ رہا تھا کہ کسی کھیل کی ہدایت کاری کر رہا ہے۔ اس کا سٹیج ہسپتال کا ایک کمرہ اور اس کا آرکسٹرا وائرلیس سیٹ تھا۔ اس کے ہونٹ خشک تھے۔ اور آنکھیں بخار سے جل رہی تھیں لیکن وہ اپنے بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے غیر مرئی اداکاروں کو ہدایات دینے لگا۔’’پردہ گرائیے‘‘ وہ چلایا ’’موسیقی تیز‘‘ خوب کھیل کامیاب ہے۔ کھیل۔۔۔کا۔۔۔کامیاب ہے۔‘‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وائے می ناٹ


میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…