اسلام آباد(جاوید چوہدری )کینیڈا میں حکومت نے ایک دلچسپ ادارہ بنا رکھا ہے‘ اس ادارے کا نام آفس آف دی ۔کنفلیکٹ آف انٹر سٹ اینڈ ایتھکس کمشنر آف کینیڈا ہے‘ یہ ادارہ حکومت اور سرکاری ملازمین پر نظر رکھتا ہے‘ یہ ادارہ قواعدوضوابط کی ۔خلاف ورزی پر وزیراعظم اور گورنر جنرل تک کی انکوائری کرتا ہے ۔اس جنوری میں کینیڈا کے وزیراعظم چھٹیوں پر تھے‘ یہ بہاماس میں آغا خان کے محل میں ٹھہرے‘
یہ خبر شائع ہوئی تو اس ادارے نے وزیراعظم کو سوال نامہ بھجوا دیا کہ آپ وزیراعظم ہوتے ہوئے کسی پرائیویٹ شخصیت سے کیوں ملے‘ آپ اس کے مہمان کیوں بنے‘ آپ اس کے محل میں کیوں ٹھہرے اور آپ نے اس کا ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کیاوغیرہ وغیرہ‘ کینیڈین وزیراعظم کو اس ادارے کو نہ صرف مطمئن کرنا پڑا بلکہ یہ لکھ کر دینا پڑا کہ آغا خان میرے دوست ہیں اور میں پرائیویٹ کیپسٹی میں ذاتی چھٹیوں پران کے گھر ٹھہراتھا اوراس ملاقات سے کسی قسم کا کنفلیکٹٹ آف انٹرسٹ پیدا نہیں ہوا‘اس ادارے نے وزیراعظم کی بات مان لی‘ اگر وزیراعظم ادارے کو مطمئن نہ کر پاتے توان کے خلاف کیس کھل جاتا اور شاید ان کی کرسی بھی چلی جاتی۔آپ اس واقعے کو ایک طرف رکھئے اوراس کے بعد ہمارے ملک میں ہونے والا ایک تازہ ترین واقعہ ملاحظہ کیجئے‘ انڈیا کے سٹیل ٹائی کون سچن جندل دو ساتھیوں کے ساتھ پرسوں پرائیویٹ جہاز پر کابل سے پاکستان آئے‘ ہمارے وزیراعظم کے ساتھ مری میں خفیہ ملاقات کی‘ کھانا کھایا اور واپس چلے گئے‘ یہ ملاقات عین اس وقت ہوئی جب کل بھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے اور احسان اللہ احسان نے کل را اور این ڈی ایس کی پاکستان میں انوالومنٹ کا اعتراف کیا چنانچہ یہ ملاقات ایک سیاسی بحران بن گئی‘ جندل کیوں آیا‘ ملاقات کیوں ہوئی اوراس ملاقات کو خفیہ کیوں رکھا گیا‘یہ سوالات بہت اہم ہیں‘
آپ وزیراعظم ہیں اور پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے ان کا انڈیا کے کسی شخص کے ساتھ رابطہ ذاتی نہیں ہو سکتا‘۔ان کو ریاست اور ذاتی تعلقات کو آپس میں الجھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ یہ کیوں ہوا‘ کیسے ہوا اور حکومت کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔