اسلام آباد(جاوید چوہدری)آج برطانوی وزیراعظم نے شیڈول سے تین سال پہلے الیکشن کرانے کااعلان کر دیا‘ برطانیہ میں 7مئی 2015ء کو جنرل الیکشن ہوئے تھے‘ الیکشن میں کنزرویٹو پارٹی نے اکثریت حاصل کی‘ ڈیوڈ کیمرون وزیراعظم بنے‘23 جون 2016ء کو ’’برطانیہ کو یورپی یونین میں رہنا چاہیے یا یونین سے باہر نکل جانا چاہیے‘‘ ۔اس نقطے پر ریفرنڈم ہوا‘ عوام نے وزیراعظم کی رائے کے خلاف ووٹ دے دیا‘ ڈیوڈ
کیمرون نے ریفرنڈم سے اگلے دن اخلاقی دبائو میں استعفیٰ دے دیا‘ تھریسامئے نئی وزیراعظم بنیں‘ یہ اب یورپی یونین کے ساتھ نئے اور تفصیلی مذاکرات کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کا خیال ہے ۔اس ایشو پر ہائوس آف کامنز تقسیم ہے‘ ہم جب اس منقسم مینڈیٹ کے ساتھ مذاکرات کیلئے جائیں گے تو یورپی یونین ہمیں کمزور سمجھے گی اور یہ برطانیہ جیسے ملک کی بے عزتی ہے چنانچہ ہمیں مذاکرات کیلئے فریش اورمکمل مینڈیٹ کی ضرورت ہے‘ یہ مینڈیٹ طے کرے گا ہمیں مذاکرات کرنے چاہئیں یا نہیں اور مذاکرات کی نوعیت کیا ہو گی۔آپ جمہوریت کا کمال دیکھئے برطانیہ اتنی معمولی سی بات پر شیڈول سے تین سال پہلے الیکشن کرا رہا ہے اوراس الیکشن پراس کے اربوں پائونڈ خرچ ہو جائیں گے جبکہ آپ اس کے مقابلے میں اپنے حکمرانوں کو دیکھئے یہ ہرصورت میں پانچ سال پورے کرنا چاہتے ہیں‘ خواہ ان پانچ برسوں کے بعد ملک رہے یا نہ رہے‘ ہم بڑے دلچسپ لوگ ہیں‘ ہم لاش کو دیکھ کر شکرادا کرتے ہیں کہ بندہ مر گیا لیکن آنکھ بچ گئی‘ ملک ملک نہ رہا لیکن ہم نے پانچ سال پورے کر لئے‘ ہم اگر جمہوریت کو مائی بات سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں جمہوریت کے مائی باپ سے جمہوریت بھی سیکھنی چاہیے‘ ہمیں برطانوی وزیراعظم کی طرح کرسی چھوڑنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا چاہیے لیکن شاید اس ملک میں یہ نہیں ہو سکے گی‘ آپ دیکھ لیجئے گا پرسوں 20 اپریل کو پانامہ
کیس کا فیصلہ آئے گا لیکن حکومت فیصلے کے بعد بھی کرسی نہیں چھوڑے گی‘ یہ فیصلے کی تشریح یا نظرثانی کی اپیل کرے گی۔ہم ایسے کیوں ہیں اور برطانیہ جیسے ملک ویسے کیوں ہیں‘