سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکران کے گھر ملنے کے لیے آئے، اس دوران وہ وضو کرنے لگے، ان کی ایڑی کا کچھ حصہ خشک رہ گیا، سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا:’’اے بھائی! میں نے نبی کریمؐ سے یہ بات سنی ہے کہ جس آدمی کے پاؤں کا کچھ حصہ بھی وضو میں خشک رہ جائے گا،
قیامت کے دن اس کو جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا۔‘‘بہن کی یہ بات سن کر بھائی نے دوبارہ وضو کیا اور مسجد تشریف لے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابیاتؓ اپنے بھائیوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے طے کر لیا کہ میری بیوی فوت ہو چکی ہے، اب میں دوبارہ نکاح نہیں کروں گا بلکہ اپنے آپ کو پڑھنے پڑھانے میں مشغول رکھوں گا، جب ان کی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ کو پتہ چلا تو فرمانے لگیں:’’اے بھائی! تم ابھی جوانی کی عمر میں ہو، تم نکاح کا ارادہ کیوں ترک کر چکے ہو؟ اگر تم نکاح کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں صاحب اولاد بنائے گا اگر اولاد ایمان والی ہوتی ہے تو وہ اپنی زندگی میں جتنے سانس لیتی ہے، ہر سانس کے بدلے ان کے ماں باپ کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے، تم اس صدقۂ جاریہ سے کیوں محروم ہوتے ہو؟‘‘انہوں نے اتنے اچھے انداز میں بات کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور انہوں نے دوبارہ نکاح کرکے پھر ازدواجی زندگی گزاری، اس سے پتہ چلا کہ پہلے وقت کی بہنیں اپنے بھائیوں کو دین کی طرف متوجہ کیا کرتی تھیں۔