ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مشال خان کاقتل،عوامی نیشنل پارٹی نے انتہائی سخت موقف اپنا لیا،سنگین الزام عائد

datetime 16  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور(آئی این پی)عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ مشال خان کو قتل کرنے والے انسان نہیں درندے تھے ،تنگ نظری کی سوچ کا ساتھ نہ دینے والوں کو منصوبے کے تحت راستے سے ہٹایا جا رہا ہے جو فرقہ وارانہ سیاست کی بنیاد ہے ، حکومتوں ، سیاسی جماعتوں سمیت علمائے حق کو آگے آنا ہو گا،وہ اتوار کو پی کے12یو سی بالو پبی میں ملک مشتاق کے حجرے میں ایک تنظیمی اجلاس

سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،جبکہ اس موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں سے اہم شخصیات نے مستعفی ہو کر اے این پی میں شمولیت کا اعلان کر دیا ، میاں افتخار حسین نے پارٹی میں شامل ہونے والوں کو سرخ ٹوپیاں پہنائیں ، اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ معاشرے میں روشن خیال اور ترقی پسند لوگوں کو دبانے اور خاموش کرنے کیلئے منظم سازش کار فرما ہے اور اگر ہم نے اتحاو اتفاق کا مظاہرہ نہ کیا تو مستقبل میں ہمارے بچے مرتے رہیں گے ، انہوں نے کہا کہ کرسی کو خطرہ ہو تو ہر کوئی سوموٹو کا مطالبہ کرنے لگتا ہے اور اب جبکہ قوم کے مستقبل کو خطرہ ہے تو سوموٹو کا مطالبہ کرنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا ،انہوں نے کہا کہ حکومت اس سانحے سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی ،تاہم انہوں نے کہا کہ مردان سانحے کی فی الفور جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی مردان کے مطابق مشال خان پر لگائے گئے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت یا مواد سامنے نہیں آیا ہے۔جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس معاملے کے پیچھے دیگر محرکات اور سازش کارفرما ہیں جو رجعت پسندانہ اور انتہا پسندانہ سوچ کو تقویت دینے کا موجب ہے اور معاشرے میں روشن خیال اور ترقی پسند لوگوں کو دبانے اور خاموش کرنے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں علمائے حق کا کردار

نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاکہ معاشرے کواس قسم کی صورتحال سے نکال سکیں۔ انہوں نے مشال خان شہید کے والد کی ہمت کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی اپنا بیٹا کھویا ہے اور میں ان کی دلی کیفیت سمجھ سکتا ہوں ، انہوں نے کہا کہ ہم سب مشال خان کے اہل خانہ کے غم اور دکھ میں برابر کے شریک ہیں،میاں افتخار حسین نے کہا کہ باچا خان بابا نے ہمیشہ امن بھائی چارے اور عدم تشدد کا درس دیا ہے اور ہمیں یہ سبق وراثت میں ملا ہے ، انہوں نے کہا کہ سانحے کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اورواقعے کے پیچھے کار فرما خفیہ ہاتھ بے نقاب کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ، انہوں نے کہا کہ دین اسلام کے مطابق اور کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق خود مدعی اور منصف بن کر بطور سزا تشدد یا قتل کر ے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو روز میں سامنے آئی ہوئی معلومات اور حقائق کے مطابق اس سانحے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور بیرونی عناصر کا کردار کافی مشکوک ہو گیا ہے ۔ لہذا جوڈیشل انکوائری کے ذریعے معاملے کی شفاف تحقیقات ، ذمہ داروں کا تعین اور مجرموں کو قرار واقعی سزا انتہائی ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات کی روک تھام ہو سکے۔دریں اثناء عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک نے مشال خان کے قتل کو دہشتگردانہ سوچ کی مذموم کاروائی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سانحے میں ملوث درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، وہ اتوار کو صوابی میں مشال خان کے والد سے تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست سے قطع نظر اس اندوہناک سانحے کے محرکات سامنے لانے کیلئے جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے اور اس کے پیچھے چھپے خفیہ ہاتھ قوم کے سامنے لائے جائیں ،

انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص سوچ رکھنے والے قوم کے مستقبل کو پیغام دے رہے ہیں کہ اگر وہ ہماری دہشتگردانہ سوچ پر نہیں چلیں گے تو ان کا مشال جیسا حال کیا جائے گا، تاہم عوام صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور باہمی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمت اور حوصلے سے کام لیں، انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کیلئے ملک میں قانون موجود ہے تاہم قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے ،انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ جس الزام کے تحت مشال خان کو شہید کیا گیا وہ تاحال ثابت نہیں ہوا لیکن درندوں نے اپنی مخصوص کو پختگی دینے کیلئے یہ اقدام کیا، ،تاہم انہوں نے کہا کہ مردان سانحے کی فی الفور جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی مردان کے مطابق مشال خان پر لگائے گئے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت یا مواد سامنے نہیں آیا ہے۔جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس معاملے کے پیچھے دیگر محرکات اور سازش کارفرما ہیں،انہوں نے کہا کہ باچا خان بابا نے ہمیشہ امن بھائی چارے اور عدم تشدد کا درس دیا ہے ، انہوں نے کہا کہ سانحے کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اورواقعے کے پیچھے کار فرما خفیہ ہاتھ بے نقاب کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ،

انہوں نے کہا کہ دین اسلام کے مطابق اور کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق خود مدعی اور منصف بن کر بطور سزا تشدد یا قتل کر ے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو روز میں سامنے آئی ہوئی معلومات اور حقائق کے مطابق اس سانحے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور بیرونی عناصر کا کردار کافی مشکوک ہو گیا ہے ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…