حضرت مولانا علی میاں صاحب ؒ کی ایک تقریر ہے جو انہوں نے اہل علم کے سامنے کی تھی، اس میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حیدرآباد میں ایک بزرگ تھے، ایک مرتبہ ان کے گھٹنوں میں درد ہوا۔ وہ اسی حال میں مجلس میں تشریف فرما تھے۔ مجلس میں سب مریدین اور معتقدین بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے خادم سے دوا ملنے کو کہا، خادم نے دوا ملنا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ بزرگ صاحب مجلس میں خاموش ہیں،
مگر مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں کانا پوسی کر رہے ہیں اورآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہیں، جیسا کہ ہمارے طلبہ میں ہوتا ہے ۔اور اس کاناپوسی کی وجہ سے ایک گونج سی مجلس میں پیدا ہو رہی ہے۔ اس خادم نے سوچا کہ حضرت کی مجلس کا یہ حال کبھی نہیں ہوا، ان کی مجلس میں جب بھی لوگوں کو دیکھا خاموش دیکھا، لیکن آج یہ کیا بات ہے ؟ کانا پوسی کیوں ہو رہی ہے؟ وہ باربار بے چین ہو کر ادھر اُدھر دیکھتا ہے،مگر اس کی سجھ میں نہیں آرہا ہے، وہ بزرگ اس انتشارکو بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ کیوں ہورہا ہے،اور خادم کی پریشانی بھی بھانپ گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے گھٹنے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ اس طرح وہ خادم کواس انتشار کی وجہ بتلانا چاہتے تھے، لیکن خادم یوں سمجھا کہ یہاں درد ہے، اس لیے وہ اور دبانے لگا۔ مجلس میں شور کی کیفیت ابھی بھی ختم نہ ہوئی تھی، اور وہ بے چین ادھر اُدھردیکھے جارہا ہے ۔آخر ان بزرگ نے اپنا منہ اس کے کان کے قریب لے جاکر کہا کہ میں گھٹنے کے اس درد کی وجہ سے آج رات کے معمولات پورے ادا نہیں کر سکاہوں، اس کا یہ اثر ہے جو تم مجلس میں دیکھ رہے ہو۔ یہ واقعہ بیان کر کے حضرت مولانا علی صاحب ؒ نے ایک شعر پڑھا۔
رحم کر قوم کی حالت پر اے ذکر ِخدا
کہ بے ادب ہوگئی ہے محفل ترے اٹھ جانے سے
حضرت فرماتے ہیں کہ ایک اللہ والے کے اپنے معمولات چھوڑنے کا نتیجہ مجلس پر یہ ہو سکتا ہے تو تمام اہل علم اپنے معمولات چھوڑ دیں گے تو دنیا پر کیا اثر مرتب ہوگا؟ آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اہل علم کی جانب سے یہ بڑی غفلت ہے،اور اس کے اثرات آدمی کے ماتحت لوگوںمیں بھی نظر آتے ہیں۔