اسلام آباد(نیوز ڈیسک)برطانوی حکومت نے سکولوں کو نئی ہدایات جاری کی ہیں جن کے مطابق 11 سالہ بچوں کو جنسی تعلقات کے بارے میں تعلیم دینا لازمی ہوگا۔ یہ فیصلہ بعض ممبرانِ پارلیمان کی جانب سے اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ سکولوں میں جنسی تعلیم کو ہر طالب علم کے لیے لازمی بنایا جائے۔برطانوی سماج میں جنسیت کبھی اتنے عام نہیں تھی جتنے اب ہے۔ اس کا اندازہ آپ کو ٹی وی دیکھ کر ہو جاتا ہے یا اشتہار دیکھ کر اور برطانوی سکول بھی اس سے بچ نہیں پائے ہیں۔ایک ایسے ملک میں جہاں فحش فلموں پر قانونی طورپر پابندی ہے وہاں ان تک انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی بے حد آسان ہے۔ اس کا ایک اندازہ تب ہوتا ہے جب کم سن بچیوں کے حاملہ ہونے کی تعداد پر نظر ڈالی جائے۔ویسے تو برطانیہ میں کم سن حاملہ بچیوں کی تعداد میں کمی درج کی گئی ہے لیکن ایک حالیہ تحقیق کے مطابق برطانیہ یورپی یونین کا وہ چوتھا بڑا ملک ہے جہاں کم سن بچیاں سب سے زیادہ حاملہ ہوتی ہیں۔ویسے اس سلسلے میں دن بہ دن حالات میں بہتری آ رہی ہے اور بچوں کے فلاح کے لیے کام کرنے والے خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی اس پالیسی کی کامیابی ہے جس کے تحت سکولوں میں سیکس ایجوکیشن کو فروغ دی گئی ہے۔برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اسے اس سمت مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔برطانیہ میں تعلیم کے سیکریٹری نک مورگن کا کہنا ہے کہ جنسیت کے معاملے میں بچوں کو بے حد دباو¿ کا سامنا ہوتا ہے اور ہمیں اس سے متعلق خطرات سے بچانے میں ان کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ایک برطانوی اخبار میں نک مورگن نے لکھا ’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری لڑکیاں جو تعلیم حاصل کریں وہ انہیں نہ صرف تعلیم کے شعبے میں کامیابی دے بلکہ انہیں جدید برطانیہ میں زندگی بسر کرنے کے لیے بھی تیار کرے۔‘اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ کے سکولوں میں بچوں کو واضح طور یہ بتایا جائے کہ کسی بھی جنسی رشتے کے لیے وہ اپنی رضامندی کب اور کیسے دیں۔ حالانکہ برطانیہ میں ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی قانونی عمر 16 برس ہے۔برطانوی حکام دو معاملات سے نمٹنا چاہتے ہیں۔پہلا یہ کہ وہ کم سن بچوں کو یہ بتائیں کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نمٹیں جب انہیں اپنی عمر کے کسی دوست سے عشق ہوگیا اور وہ جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہوں لیکن انہیں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہو۔اور دوسری صورت بےحد پیچیدہ اور خوفناک ہے۔ اور وہ ہے کم سن بچیوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی صورتحال۔کم سن بچیوں کے جنسی استحصال سے متعلق بعض سکینڈل کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم سن بچیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا استحصال ہوتا ہے۔ان واقعات کی تفتیش سے یہ معلوم ہوا کہ اس طرح کے جنسی استحصال کرنے سے پہلے ملزم کم سن لڑکیوں کو پہلے پیار کر کے، تحفے تحائف دے کر اپنی جانب مائل کرتے ہیں اور پھر ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ بعض معاملات میں لڑکیوں کے ’بوائے فرینڈز‘ ان کا جنسی استحصال کر رہے تھے۔سکولوں کو جاری ہونے والی ہدایات تیار کرنے والے ادارے پی ایس ایچ ای کا کہنا ہے کہ بچوں کے استحصال کے معاملات میں ہونے والی پبلک انکوائری یا تفتیش میں یہ بات سامنے ہے آئی ہے کہ سکولوں میں بچوں کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ وہ کیسے خود کو اور دوسرے کو محفوظ رکھیں۔پی ایس ایچ ای کے جان ڈلون کا کہنا ہے ’یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن جب تک اسے لازمی نہیں بنایا جائے گا تب تک اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔‘حکومت کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ہیں ہو سکتا ہے ان کے مثبت اثرات سامنے آئیں لیکن متعدد تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے اپنی ذاتی زندگی میں رشتوں کی گہرائی کو سمجھتے وہ اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں۔بچے بہتر فیصلے کر سکیں اس کے لیے حکومت، سکول اور والدین تینوں مل کر ان کے بہتر مستقبل کی یقین دہانی کرانے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔