اسلام آباد (آئی این پی )امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ کنفیوژن کو ختم کرکے بتائے کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا؟ آج کی سماعت میں گفٹ لینے اور دینے کی نہ ختم ہونے والی کہانی تھی ، صرف گفٹ پر گفٹ دیے گئے ہیں ، 55 کروڑ روپے کے گفٹ شاید ایک ریاست ہی دوسری ریاست کو دے سکے ۔
اسمبلی میں ممبران کو استثنیٰ حاصل ہے جھوٹ کو نہیں، جھوٹ بولنا مسجد میں بھی جرم ہے اور اسمبلی میں بھی ، احتساب میکنزم بنانا ہمارا مطالبہ ہے اور اس میکانزم میں سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کروں گا ، کنفیوژن ہوتو پھر لوگ عدالت کا رخ کرتے ہیں۔صرف گفٹ پر گفٹ دیئے گئے،ہم سب کا احتساب چاہتے ہیں تاکہ عوام کو صاف شفاف اور کرپشن فری پاکستان مل سکے، احتساب کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا۔بدھ کوسپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل عدالت میں ایک کمزور کیس لڑ رہے ہیں وہ خود تو ایک قابل وکیل ہیں لیکن ان کا کیس کمزور ہے۔پانامہ لیکس کی وجہ سے حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے بلکہ حکومت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہے ۔وزیراعظم کے وکیل کے دلائل خود اپنے مؤکل کے خلاف تھے جس کی وجہ سے آج اتنے سارے نئے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔
وزیراعظم کے وکیل کے دلائل سے پتہ چلا کہ حکمران خاندان نے جو ڈیل کی اس کے سٹامپ پیپرز بعد میں لیے گئے ۔آج کی سماعت میں گفٹ لینے اور دینے کی نہ ختم ہونے والی کہانی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران خاندان نے اپنے دور میں ایک ہی کام کیا ہے اور وہ ہے پیسے بنانے کا کام۔صرف گفٹ پر گفٹ دیئے گئے ہیں 55 کروڑ روپے کے گفٹ شاید ایک ریاست ہی دوسری ریاست کو دے سکے۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسمبلی میں ممبران کو استثنیٰ حاصل ہے جھوٹ کو نہیں۔ جھوٹ بولنا مسجد میں بھی جرم ہے اور اسمبلی میں بھی جرم ہے ۔جھوٹ خدا کے سامنے بولنا بھی جرم ہے اور عوام کے سامنے بولنا بھی جرم ہے۔اسمبلی ایسا علاقہ نہیں جو قانون کے دائرہ کار میں نہ آتا ہو۔سراج الحق نے کہا کہ میں پہلے دن سے کہتا آیا ہوں کہ صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ سچ کا راستہ ہے کیونکہ سچ میں نجات ہے اورجھوٹ میں بربادی ۔
ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ ہم احتساب چاہتے ہیں اور احتساب کے لیے میکانزم بنانا ہمارا مطالبہ ہے اور اس میکانزم میں سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کروں گا لیکن ہر مہذب اور جمہوری معاشرے میں احتساب بڑے آدمی سے شروع ہوتا ہے پہلے مرحلے میں وزیراعظم نواز شریف کا احتساب کیا جائے اور اس کے بعد اپوزیشن سمیت جن لوگوں کے نام پانامہ سکینڈل میں آئے جنہوں نے قرضے معاف کرائے اور جو مالی کرپشن میں ملوث ہیں،سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جہاں کنفیوژن ہوتو پھر لوگ عدالت کا رخ کرتے ہیں ۔عدالت کاکام ہے کہ کنفیوژن کو ختم کر کے بتائے کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا؟انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پانامہ کے حوالے سے ذمہ داری قومی اسمبلی اور سینٹ کی تھی لیکن جب تمام اپوزیشن نے مل کر کمیشن کا مطالبہ کیا اور ٹی او آرز بنائے جنہیں حکومت نے تسلیم نہیں کیا جس کے بعد ایک ہی سپریم کورٹ کا راستہ کھلا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کا احتساب چاہتے ہیں تاکہ عوام کو صاف شفاف اور کرپشن فری پاکستان مل سکے۔ان کاکہنا تھا کہ احتساب کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہماری کوشش ہے کہ کرپشن ختم ہو اور کلین پاکستان اور گرین پاکستان لوگوں کو ملے۔