ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

افغان صدر اپنے عوام کو عزیز رکھیں اور مودی کی زبان نہ بولیں، خورشید شاہ

datetime 5  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آئی این پی) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ افغان صدر اپنے عوام کو عزیز رکھیں اور مودی کی زبان نہ بولیں ، افغان صدر بھارت کے ساتھ نئی نئی مگر عارضی دوستی میں اتنا دور نہ نکل جائیں کہ پھر انہیں واپسی میں مشکل ہو، اشرف غنی وہ وقت بھی بھول گئے جب سویت یونین کے حملے کے وقت بھارت روس کے ساتھ کھڑا تھا اور افغانستان کی بربادی کا تماشا دیکھ رہا تھا ، افغان صدر کا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب انتہائی قابل مذمت ہے،پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی اور پھر دہشت گردی اور بد امنی کا اکھاڑہ بن گیا مگر ہم نے افغانستان کو برادر ملک ہونے کے ناطے کبھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا ۔

پیر کو افغان صدر اشرف غنی کی بھارت میں منعقدہ ہارٹ اف ایشیا کانفرنس میں پاکستان مخالف تقریر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان صدر بھارت کے ساتھ نئی نئی مگر عارضی دوستی میں اتنا دور نہ نکل جائیں کہ پھر انہیں واپسی میں مشکل ہو۔ انہوں نے کہا کہ افغان صدر اپنے عوام کو عزیز رکھیں اور مودی کی زبان نہ بولیں ۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پاکستان نے دہائیوں تک نہ صرف لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کی بلکہ مشکل ترین وقت میں افغانستان کے عوام کو ان کے ملک میں اپنے بری اور بحری راستوں کے ذریعے ضروریات زندگی بھی مہیا کیں۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی وہ وقت بھی بھول گئے جب سویت یونین کے حملے کے وقت بھارت روس کے ساتھ کھڑا تھا اور افغانستان کی بربادی کا تماشا دیکھ رہا تھا اور اج بھی بھارت افغانستان کے ساتھ پاکستان کے بغض اور حسد میں دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور افغانستان پر جلد ہی اس دوستی کا پردہ چاک ہو جائے گا۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ افغانستان سالہا سال تک عالمی طاقتوں کے زیر تسلط رہا ہے اور اب اسے اندازہ نہیں ہے کہ ازاد اور خودمختار ملک عالمی برادری میں اپنا مقام کیسے بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک ابن الوقتی، خوشامد اور مطلب پرستی سے دنیا میں باوقار مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ افغان صدر کے یہ الفاظ کہ پاکستان افغانستان کو مدد دینے کی بجائے یہ رقم دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کیلئے استعمال کرے، انتہائی قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے لاکھوں مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی اور پھر دہشت گردی اور بد امنی کا اکھاڑہ بن گئے مگر ہم نے افغانستان کو برادر ملک ہونے کے ناطے کبھی مورد الزام نہ ٹھہرایا اور اس کے اچھے برے وقت میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے رہے

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…