جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

عوام ٹھاٹھیں نہیں مار سکے

datetime 3  ‬‮نومبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حقائق تلخ ہیں لیکن حقائق ‘ حقائق ہیں اور عمران خان کو اب یہ حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں۔
عمران خان نے دعویٰ کیا تھا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دو نومبر کو اسلام آباد پہنچے گا لیکن سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں اور نہ ہی یہ اسلام آباد پہنچا‘ بلوچستان ملک کا محروم ترین صوبہ ہے‘ یہ صوبہ 70برس سے محرومی چن رہا ہے‘بلوچ پنجابی قیادت‘ پنجابی رویوں اور پنجابی طرز عمل کے خلاف ہیں لیکن اس تمام تر نفرت اور اختلاف کے باوجود پورے بلوچستان سے کوئی قافلہ اسلام آباد نہیں آیا‘ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں کوئی بلوچی گروپ شامل نہیں ہوا‘رند قبیلہ بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا قبیلہ ہے‘ لاکھوں لوگ اس قبیلے میں شامل ہیں‘سردار یار محمد رند اس قبیلے کے سردار ہیں‘ یہ اگر اپنے قبیلے ہی کو لے آتے تو وفاقی دارالحکومت میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچتی لیکن یار محمد رند اکیلے دکھائی دیتے رہے‘ یہ اپنے لوگوں کو بھی باہر نہیں نکال سکے‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب ہوا بلوچستان عمران خان کے اس پاکستان کا حصہ نہیں تھا جس نے دو نومبر کو باہر نکلنا تھا اور ٹھاٹھیں مارنی تھیں‘ سندھ ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے‘ سندھ سے پاکستان تحریک انصاف کے ایک ایم این اے اور تین ایم پی اے ہیں‘ عمران خان کراچی میں بہت پاپولر ہیں‘ یہ پچھلے تیس برسوں کی ہسٹری کے پہلے لیڈر ہیں جس نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ناقابل تسخیر قلعے پر ضرب لگائی‘شاہ محمود قریشی ملتان کی سب سے بڑی گدی کے مالک ہیں‘ ان کے

لاکھوں مریدین جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے متعدد اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن کراچی سے کوئی قافلہ نکلا‘ سندھ سے لوگ آئے اور نہ ہی ملتان سے کسی سمندر نے ٹھاٹھیں ماریں‘ صرف عارف علوی‘ عمران اسماعیل اور علی زیدی بنی گالا میں ٹھاٹھیں مارتے رہے‘ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ یہاں سے پی ٹی آئی کے 49 ایم پی ایز‘18 ایم این ایز اور6 سینیٹر ہیں‘ ہم اگر ایم این ایز اور ایم پی ایز کے کل ووٹ جمع کریں تو کے پی کے عوام نے 2013ءکے الیکشن میں عمران خان کو 10 لاکھ 39 ہزار 7 سو 19ووٹ دیئے ‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 30 اکتوبر کو نوشہرہ میں اعلان کیا تھا میں 31 اکتوبر کو پورا صوبہ لے کر اسلام آباد جا ﺅں گا‘ صوبے کی روانگی کا وقت صبح دس بجے طے تھا لیکن صوبہ 31اکتوبر کی شام تک جمع نہ ہو سکا‘ پرویز خٹک شام پانچ بجے صوابی سے نکلے تھے تو پورا صوبہ صرف اڑھائی ہزار لوگوں پر مشتمل تھا‘ پرویز خٹک کے حلقے کے آدھے ووٹرز بھی ان کے ساتھ چل پڑتے تو صورت حال مختلف ہوجاتی لیکن وزیراعلیٰ پورا صوبہ تو دور اپنے ووٹروں کو بھی باہر نہ نکال سکے‘ اوپر سے ستم یہ ہوا کہ یہ قافلہ جب پنجاب کی سرحد پر پہنچا تو سامنے پولیس کھڑی تھی اور پورا صوبہ پنجاب پولیس کی شیلنگ‘ کنٹینرز اور رکاوٹوں کا مقابلہ نہ کر سکا‘ قافلے نے رات برہان انٹرچینج پرگزاری اور اگلی صبح پورا صوبہ واپس چلا گیا‘ پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی مقبول ہے لیکن یہ دونوں خطے بھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل نہیں ہوئے‘ عوام پاکستان تحریک انصاف کے کشمیری رہنما بیرسٹر سلطان محمود کی زیارت تک سے محروم رہے‘ پیچھے رہ گیا پنجاب ‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے پنجاب سے بھی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر باہر نہیں آیا‘ اعجاز چودھری 27 اکتوبر کو جانثاروں کا قافلہ لے کر نکلے‘ اس قافلے میں درجن بھر لوگ شامل تھے اور یہ بھی آہستہ آہستہ پتلی گلیوں میں گم ہوتے چلے گئے‘ یہ درست ہے پنجاب حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف بھرپور طاقت استعمال کی‘ پکڑ دھکڑبھی ہوئی‘ پولیس فورس بھی استعمال ہوئی اور راستے

بھی بند کئے گئے مگر یہ کون سا انقلاب تھا جو پولیس فورس‘ پکڑ دھکڑ اور راستوں کی بندش کا مقابلہ نہیں کر سکا‘ جو سڑکوں کی رکاوٹیں نہیں ہٹا سکا اور آپ آخر میں راولپنڈی اور اسلام آباد آ جائیے۔ شیخ رشید اپنی پوری پارٹی سمیت عمران خان کے اتحادی ہیں‘ شیخ صاحب نے این اے 55 سے88627 ووٹ حاصل کئے تھے‘ عمران خان این اے 56 سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں‘ انہوں نے 2013ءمیں اس حلقے سے 80577 ووٹ حاصل کئے‘ غلام سرور خان ٹیکسلا سے ایم این اے ہیں‘ انہوں نے 110593ووٹ لئے اور اسد عمر اسلام آباد سے 48073 ووٹ لے کر ایم این اے منتخب ہوئے گویا عوام نے عمران خان کو راولپنڈی اسلام آباد سے تین لاکھ 27 ہزار870 ووٹ دیئے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف 28 اکتوبر سے 2 نومبر تک بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنے ان ووٹرز کا راستہ دیکھتی رہی مگر یہ لوگ بھی باہر نہیں نکلے‘ شیخ رشید نے 28 اکتوبرکو راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ اس دن گلیوں میں موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے رہے‘ چینلزکی ڈی ایس این جیز پر سگار پینے کے مظاہرے کرتے رہے لیکن فرزند راولپنڈی خطاب کےلئے راولپنڈی سے تین سو لوگ جمع نہیں کر سکے‘ یہ بھی بنی گالہ اکیلے تشریف لے گئے‘ ان تمام حالات نے مل کرعمران خان کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ریمارکس اور ُاس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیچھے چھپنے پر مجبور کر دیاجس کے بارے میں عمران خان نے فرمایا تھا ”اوئے جسٹس صدیقی دیکھو تمہارے آرڈر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے“یوں عمران خان لاک ڈاﺅن سے پیچھے ہٹ گئے اور ان کا دھرنا جلسے میں تبدیل ہو گیا‘ عمران خان کو یہ حقیقت ماننا ہو گی ان کے دائیں بائیں کھڑے قائدین میں سے کوئی شخص دس لاکھ تو دور دس ہزار لوگ بھی جمع نہیں کر سکا‘ان میں سے کوئی عوام کو ٹھاٹھیں مارنے پر بھی مجبور نہیں کر سکا‘ یہ کال ناکامی تھی اور یہ ناکامی مستقبل میں پارٹی کےلئے خوفناک ثابت ہو گی۔

آج عمران خان کوچند بڑی حقیقتیں دیوار پر لکھ لینی چاہئیں‘ خان صاحب کو لکھ لینا چاہیے یہ ملک واقعی بدل چکا ہے اور لوگ خواہ آپ کے مرید ہوں‘ ووٹر ہوں‘ فین ہوں یا جانثار ہوں یہ اب جذباتی ہو کر باہر نہیں نکلتے‘ یہ نعروں اور دعوﺅں کو حقیقت نہیں مانتے چنانچہ خان صاحب اگر آئندہ تلاشی یا استعفے کےلئے باہر نکلیں تو یہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے دعوے نہ کریں‘ یہ اپنی کشتیاں جلانے کی غلطی بھی نہ کریں‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے یہ مسلسل ٹی وی پر رہ کر عوام میں اپنی قدر کھوچکے ہیں‘ آپ جب دن میں دس دس بار میڈیا ٹاک کریں گے‘ روز انٹرویو دیں گے‘ پریس کانفرنس کریں گے‘ جلسے کریں گے‘ سوچے سمجھے بغیر بولیں گے اور اتحادیوں کو رشتوں کا طعنہ دے کر ناراض کرتے رہیں گے تو آپ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر چار پانچ ہزار لوگوں سے اوپر نہیں جائے گا چنانچہ خان صاحب کو اپنی میڈیا سٹریٹجی کی ناکامی بھی مان لینی چاہیے‘ خان صاحب کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے‘ آپ جب تاریخ دے کر تاریخ بدلیں گے‘ آپ جب آسمان کو چھونے کے دعوے کر کے ہواﺅں کو چوم کر واپس آ جائیں گے‘ آپ جب تخت یا تختہ کا اعلان کر یں گے اور آپ جب شہادت کے دعوے کریں گے ‘ خود بنی گالا کی پہاڑی پر پش اپس نکالتے رہیں گے اور عوام سڑکوں پر ڈنڈے کھاتے رہیں گے تو لوگوں میں آپ کی قدر کم ہو گی اور عمران خان کی قدر میں کمی ہوئی ہے‘ لوگ اب انہیں اتنا سیریس نہیں لے رہے جتنا یہ 2013ءکے الیکشنز اور 2014ءکے دھرنے میں لے رہے تھے‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کے خوفناک عمل سے گزر رہی ہے‘ خان صاحب کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں‘ ان کے ساتھیوں نے انہیں دو نومبر کے دن تنہا چھوڑ دیا تھا‘ یہ لوگ عوام کو اکٹھا کرنے کی بجائے خود بنی گالا میں بیٹھ گئے اور یوں عمران خان پوری دنیا

میں مذاق بن گئے‘ خان صاحب کو اپنی پارٹی پر بھی توجہ دینا ہو گی‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے لیڈر کا پہلا امتحان اس کی زبان ہوتی ہے‘ یہ اگر اپنے لفظوں کو لیڈ نہیں کر سکتا تو یہ دنیا کے کسی شخص کی قیادت نہیں کر سکتا اور خان صاحب کو اپنے لفظوں‘ اپنی زبان پر قابو نہیں‘ عمران خان کو یہ بھی لکھ لینا چاہیے سڑکیں مسئلے پیدا کرتی ہیں‘یہ مسائل حل نہیں کیا کرتیں اور آپ آج تک کوئی مسئلہ سڑک پر حل نہیں کر سکے آپ کو بالآخر اداروں کو تسلیم کرنا پڑا‘ آپ آج کے بعد اداروں کو عزت دینا شروع کر دیں‘ ادارے بھی آپ کو عزت دیں گے اور آخری بات عمران خان یہ بھی لکھ لیں 70 سال کی سیاسی خواری نے عوام کو عقل مند بنا دیا ہے‘ یہ اب ٹھاٹھیں نہیں مارتے‘ یہ صرف ٹھٹھہ مارتے ہیں چنانچہ آپ اب مذاق بننا اور مذاق بنانا بند کر دیں‘ ملک کو آگے جانے دیں اور عوام کو سانس لینے دیں‘ آپ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مزید مضبوط نہ کریں۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…