منگل‬‮ ، 18 جون‬‮ 2024 

بیوی شوہر کو اپنے والدین کی دیکھ بھال یاان پر پیسے خرچ نہ کرنے دے تو ۔۔۔؟ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا

datetime 8  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نئی دہلی(این این آئی)اگر بیوی شوہر کو اس کے بوڑھے والدین سے علیحدہ کرنے پر اصرار کرے تو شوہر اس صورت میں بیوی کو طلاق دے سکتا ہے‘عورت شوہر کے خاندان کا حصہ ہے وہ اسے والدین سے الگ نہیں کرسکتی،یہ فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ نے ایک جوڑے کی طلاق کی توثیق کرتے ہوئے دیا۔بھارتی اخبارکے مطابق شادی کے بعد بیوی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سسرال والوں کے ساتھ رہے، لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر بیو ی شوہر کو اس کے بوڑھے والدین کے ساتھ رہنے سے منع کرے یا انہیں پناہ دینے کی نیک ذمہ داری سے دور کرے تو اس ظالمانہ اقدام پر ایک ہندو بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس نیل آر دیو اورایل نگیشوارا راوی پر مشتمل دورکنی بنچ نے دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ ایک عورت شوہر کے خاندان کا حصہ ہے وہ صرف اس وجہ سے بیٹے کو ان کے والدین سے الگ نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے خاوند کی کمائی پر مکمل حق رکھے اور اپنی مرضی سے خرچ کرے۔جسٹس دیو نے فیصلے میں لکھا کہ شوہر کے والدین سے الگ رہنے کا اصرار مغربی افکار کا حصہ ہے ، ہماری ثقافت اور اقدار نہیں۔ بھارت میں ایک ہندو بیٹے کیلئے یہ طرز عمل اختیار کرنا درست نہیں اوریہ ہماری ثقافت بھی نہیں کہ وہ شادی کے بعد بیوی کے اصرار پر والدین سے علیحدہ ہوجائے اور خاص کر اس صورت میں جب وہ خاندان میں واحد کمانے والا ہو۔فیصلے میں لکھا گیا کہ بیٹے کی پرورش اور تعلیم کابوجھ والدین اٹھاتے ہیں لہذا بیٹے کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جب والدین بوڑھے ہو جائیں اوران کے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو وہ انکی دیکھ بھال کرے اور خیال رکھے۔بھارت میں عام طور پر لوگوں مغربی طرزفکر نہیں اپناتے جہاں شادی ہو یا کسی اور وجہ سے بیٹے خاندان سے الگ ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں عام حالات میں ایک بیوی شادی کے بعد شوہر کے خاندان کے ساتھ رہنے کی امید کی جاتی ہے۔جسٹس دیو نے لکھا کہ بیوی خاوند کے خاندان کا لازمی جز بن جاتی ہے، کسی ٹھوس جواز کے بغیر وہ شوہر کو اس کے خاندان سے الگ کرکے اکیلی شوہرکے ساتھ رہنے پر اصرار نہیں کر سکتی۔عدالت نے حالیہ فیصلے میں کرناٹک کے جوڑے کی طلاق کی تصدیق کی جن کی1992میں شادی ہوئی، اس میں لوئر عدالت نے بیو ی کی طرف سے مبینہ زیادتی پر طلاق دی گئی، بیوی کی طرف سے شوہر پر نوکرانی کے ساتھ تعلقات پر شک کیا گیا ،عدالت کے سامنے یہ حقیقت آئی کہ بیوی کی طرف سے بیان کردہ کوئی بھی ملازمہ ان کے گھر میں کام نہیں کرتی تھی۔ایک اور مثال میں سپریم کورٹ کے سامنے یہ آئی کہ ایک بیوی نے خود کشی کی کوشش کی جسے عین وقت پر بچا لیا گیا، وہ اپنے سسرال سے علیحدہ رہنا چاہتی تھی جو اس کے خاوند کی کمائی پر انحصار کرتے تھے۔تاہم ہائی کورٹ نے طلاق کا حق مسترد کرتے فیصلہ دیاکہ یہ بیوی کی ’جائز توقع‘ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی آمدنی کو اپنی مرضی سے استعمال میں لائے، اس پرخاندان کے دوسرے افراد کا کوئی حق نہیں۔

موضوعات:



کالم



صدقہ‘ عاجزی اور رحم


عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور…

شرطوں کی نذر ہوتے بچے

شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے…

یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…

صرف ایک زبان سے

میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…