اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جاپان کے ماہرین آثار قدیمہ حیران ہے کیونکہ انہیں ملک کے ایک قدیم قلعے کے آثار سے قدیم رومی سکے ملے ہیں۔ 10 کانسی اور تانبے کے یہ سکے سن 300ء سے 400ء کے درمیان کے ہیں جنہوں نے جنوبی اوکیناوا میں ماہرین کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ رومی سلطنت کے سکے جاپان میں دریافت ہوئے ہیں جو اپنے اصل مقام سے ہزاروں کلومیٹر دور سے ملے ہیں۔ ماہر آثار قدیمہ ہیروکی میاگی نے بتایا کہ ”شروع میں ہم سمجھے کہ یہ امریکی فوجیوں کے پھینکے گئے ایک سینٹ کے سکے ہوں گے لیکن پانی میں دھونے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو کہیں پرانے ہیں۔ بہت حیرانگی ہوئی۔“ جاپان کے یہ جزائر پر ماضی میں امریکی کے فوجی اڈے اور ہزاروں فوجی اہلکار رہے ہیں۔ تحقیق کرنے والے ماہرین نے کاتسورن قلعے میں کھدائی کی جو 2013ء سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ ایکس رے تجزیے سے پتہ چلا کہ ان سکوں پر رومی حروف کندہ ہیں اور ممکنہ طور پر شاہ قسطنطین اول اور ایک نیزہ بردار فوجی کی تصویریں ہیں۔ چند دیگر سکے 17 ویں صدی کے عثمانی عہد کے ہیں۔ اب ماہرین دماغ لڑا رہے ہیں کہ آخر یہ سکے اتنا دور اوکیناوا تک کیسے پہنچے، جہاں یہ قلعہ 13 ویں سے 14 ویں صدی میں بنا ہے اور 200 سال بعد سے ویران ہے۔ یہ کبھی ایک زمیندار کی رہائش گاہ تھی جس کی دولت علاقائی تجارت کی بدولت تھی لیکن اس کے کاروباری تعلقات کبھی یورپ سے نہیں رہے تھے۔ اوکیناوا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں پڑھانے والے میاگی نے کہا کہ “مشرقی ایشیا کے تاجر 14 ویں اور 15 ویں صدی میں زیادہ تر چینی کرنسی استعمال کرتے تھے جو گول سکہ ہوتا تھا جس کے وسط میں چوکور سوراخ تھا۔ اس لیے کرنسی کے طور پر تو مغربی سکوں کا استعمال ممکن نہیں۔