لاہو ر(این این آئی ) سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل (ر) احسان الحق نے کہا ہے کہ سول اور عسکری تعلقات میں اگر کوئی مسئلہ آبھی جائے تواس کو اتنا نہ بڑھنے دیں ،سول اور عسکری قیادت قربتیں بڑھائیں اور مل جل کر فیصلے کریں ، پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہونا چاہیے ،جہاں مسائل ہیں وہاں آپریشن ہونا چاہیے،سیاسی رہنماؤں او رلو گوں کی شمولیت کے بغیر آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت سول ملٹری تعلقا ت ایک توازن کے ساتھ چل رہے ہیں ، موجودہ سیا سی اقتدار کی متقلی کے نظام کو فوج نے سپورٹ کیا ،پاکستان کی فوج کسی بھی بین الاقوامی قوت کے دباؤ کے نتیجے میں ہرگز پاکستان میں جمہوریت کو سپورٹ نہیں کر رہی بلکہ پاکستان کے اپنے وسیع تر مفاد کیلئے کر رہی ہے ۔ پاکستان میں جمہوری قیادتیں جمہوری معیار پر پو ری نہیں اترتیں جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں ، سیاسی قیادتوں کو ملکی مسائل حل کرنے چاہئیں ،یہ نہیں کہ انتخابات ہو گئے ہیں تو ہمیں ٹھیکہ مل گیا ہے جو چاہے کریں ، ذمہ دار حکومت کوذمہ داریاں سنبھالنی چاہئیں۔ سول اور عسکری قیادت کو مل جل کر کام کرنا چاہیے ،سول اور عسکری تعلقات میں اگر کوئی مسئلہ آبھی جائے تواس کو اتنا نہ بڑھنے دیں ،سول اور عسکری قیادت قربتیں بڑھائیں اور مل جل کر فیصلے کریں ، یہی پاکستان کے بہتر مستقبل میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سول اور عسکری تعلقات میں کسی قسم کی خرابی کا تاثر نہیں ہونا چاہیے ،مشترکہ مشاورت اور مشترکہ فیصلہ سازی کرنی چاہیے ، مل کر فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی صرف عسکری اداروں کے ذریعے چلائے جانے کا تاثر بالکل غلط ہے ،خارجہ پالیسی کوئی ایک ادارہ نہیں چلاتا بلکہ وزارت خارجہ کا سیکرٹریٹ ، ملکی کابینہ اور فوج مل کر چلاتی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر سطح پر اور ہر ادارے میں کرپشن موجود ہے، کر پشن کا خاتمہ قومی ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے ، پاکستان کے ہر ادارے میں کرپشن کے خاتمے کا مکینز م تو موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا،قانون پر عمل نہیں ہوگا تو قانون مذاق بن جائے گا، ا س لیے ہر ادارے کے اندر احتساب ہونا چاہیے ۔اگر کر اچی میں امن قائم ہو جائے تواس کا فائدہ 3، 4پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے برابر ہے اس لیے ہر تین ماہ کے بعد واہاں رینجرز کی مدت میں توسیع کی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور اگر ہو بھی تو اس پابندی کو خاموشی اور عزت سے بڑھایا جانا چا ہیے ، اس پر منفی بحث مباحثے نہیں ہونے چاہئیں ، اس لحاظ سے سندھ کی قیادت کو ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے ۔ جہاں آپریشن ہو وہا ں کے سیاسی رہنماؤں اور لوگوں کو شامل ہونا چاہیے کیونکہ سیاسی رہنماؤں او رلو گوں کی شمولیت کے بغیر آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں کوئی نوگوایریا نہیں ہونا چاہیے ، جنوبی پنجاب میں مسائل ہیں وہاں بھی آپریشن ہو نا چاہیے ۔ انہو ں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ سیا ست فوج اور عوام کو مل کر حل کرنا پڑے گا، پاکستان کو معاشی طورپر مضبوط کرنا ہوگا، پاکستان کو مدد کیلئے دوسرے ممالک کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنے آپ کو اتنا مضبوط کرنا چاہیے کہ ہم ان کی مدد کر سکیں ۔