اسلام آباد (نیوز ڈیسک)دنیا بھر میں ہانگ کانگ ایسا علاقہ ہے جہاں کم از کم 40 ارب پتی ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں جگہ کی قلت کی وجہ سے رہائشی اپارٹمنٹس تو سستے ہیں مگر قبر کا حصول انتہائی دشوار اور مہنگا ہو گیا ہے۔واضح رہے کہ ہانگ کانگ میں زمین کی قلت کے سبب 1970ء کی دہائی کے دوران کے کسی مقام یا علاقے میں مستقل قبروں کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پہلے سے قائم سرکاری قبرستانوں میں موجود قبروں کی باقیات کو 6 سال بعد تلف کرنے یا جلانے کے احکامات بھی جاری کئے گئے تھے تاکہ نئے مردوں کی تدفین کا سلسلہ جاری رہ سکے۔چھ برس بعد پرانی قبر ختم کر کے نئی بنانے کی پالیسی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور اب حالات خاصے مشکل ہو گئے ہیں۔ ہانگ کانگ ایک ایسا گنجان آباد شہری علاقہ ہے جہاں ایک سال کے دوران تقریبا 40 ہزار افراد کی طبعی اور ناگہانی اموات واقع ہوتی ہیں۔کچھ فوت ہو جانے والے اس لحاظ سے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ انکے لئے بعض رشتہ دار اپنے دفن شدہ رشتہ داروں کی باقیات کو جلانے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔ اب قبر کی جگہ کے لئے قرعہ اندازی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ لیکن بہت کم مر جانے والوں کو اب بھی قبر نصیب ہوتی ہے۔ اب حکومت نے چھ سالہ پرانی قبروں میں سے مردوں کی باقیات کو سرکاری طور پر جلانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق قبر کے حصول کا ایک اور ذریعہ کسی گرجا گھر سے منسلک ہونا خیال کیا جاتا ہے۔ ہانگ کانگ کے بعض گرجا گھروں کے نجی قبرستان بھی موجود ہیں۔ ان میں اگر جگہ دستیاب ہو تو قبر بنانے کی اجازت مل جاتی ہے مگر ایک خطیر رقم ادا کرنے کے بعد ایسے قبرستانوں میں قبر کی قیمت 900 ڈالر ہوتی ہے۔قبریں بنانے والی ایک کمپنی کے ڈائریکٹر ہوئی پونگ کووک کے مطابق اب اتنی بڑی رقم کے ساتھ قبر کی جگہ کا حصول بھی ناممکن نظر آ رہا ہے۔ ہانگ کانگ شہری انتظامیہ کو زمینی رقبے کی بھوک نے مار ڈالا ہے۔ عام شہریوں کا خیال ہے کہ میونسپل حکام جس طرح شہریوں کے رہائشی معاملات کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں بالکل اسی طرح مرنے والوں کی تدفین کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہانگ کانگ میں تقریبا 7 ملین لوگ آباد ہیں۔ شہری انتظامیہ کی جانب سے مردوں کی باقیات کو جلانے کے سلسلے کو بھی عام لوگوں نے قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ سنہ 2013ء4 میں 90 فیصد مرنے والوں کو ورثاء کی خواہش پر جلا دیا گیا تھا۔لاشیں نذر آتش کرنے کے رجحان میں اب خاصا اضافہ ہوا ہے کیونکہ 1975 ء4 میں یہ صرف 38% تھا۔ قبرستانوں کی طرح وہ مقامات جہاں نذرآتش کی جانے والی لاشوں کو ررکھ رکھی جاتی ہے، وہ بھی تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ نذر آتش کی جانے والی لاشوں کی راکھ رکھنے والے مقام کو کولمبیریم کہا جاتا ہے۔لاشیں نذرآتش کرنے کے رجحان میں اب خاصا اضافہ ہوا ہے کیونکہ 1975 ء میں یہ صرف 38% تھا۔ قبرستانوں کی طرح وہ مقامات جہاں نذر آتش کی جانے والی لاشوں کی راکھ رکھی جاتی ہے، وہ بھی تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ نذرآتش کی جانے والی لاشوں کی راکھ رکھنے والے مقام کو کولمبیریم کہا جاتا ہے۔ہانگ کانگ کے فینلنگ ضلع کے مشہور لنگ شان ٹیمپل میں خاک دان رکھنے کی جگہ 43 اسکوائر انچ ہے اور اتنی ہی جگہ کی مالیت 8 ملین ہانگ کانگ ڈالر کے مساوی ہے۔