جمعہ‬‮ ، 18 جولائی‬‮ 2025 

20 ڈوبتے ہوئے افراد کو بچانے والی بہادر مسلمان لڑکی کی کہانی ۔۔جو تیراک بن کر اولمپکس میں پہنچ گئی۔۔جان کر حیران رہ جائیں گے

datetime 7  اگست‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(خصوصی رپورٹ)2016 کے اولمپکس مقابلوں میں شریک لگ بھگ ہر ایتھلیٹ کے پس منظر میں دلچسپ کہانی موجود ہوگی مگر یسریٰ مردینی ان سب کے مقابلے میں غیرمعمولی پیراک ہیں۔یسریٰ اولمپکس مقابلوں میں شریک 10 تارک وطن ایتھلیٹس میں سے ایک ہیں۔دیگر 18 سال کے کھلاڑیوں کے لیے اس عمر میں یہاں تک پہنچنا ہوسکتا ہے سب سے بڑی کامیابی ہو مگر یسریٰ کا کسی سے موازنہ ممکن نہیں۔یسریٰ اور ان کی بہن ترکی سے یونان جانے والی تارکین وطن کی کشتی میں سوار 20 افراد کی جانیں اس وقت بچائیں جب وہ راستے میں خراب ہوگئی۔ان دونوں بہنوں نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور تین گھنٹے تک اسے دھکا دے کر خشکی تک پہنچایا۔یسریٰ اب جرمن شہر برلن میں مقیم ہیں اور وہ ویمن سوئمنگ کے سو میٹر بٹر فلائی اور فری اسٹائلز مقابلوں کے کوالیفائرز میں شرکت کررہی ہیں اور ان مقابلوں کو اولمپکس کے اہم ترین ایونٹس میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔
یسریٰ جنگ زدہ شام کی باصلاحیت پیراک ہیں جن کو شامی اولمپک کمیٹی کی حمایت بھی حاصل تھی، تاہم ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اور ان کی بہن سارہ شام سے نکل گئے، جہاں سے وہ پہلے لبنان اور پھر ترکی پہنچے جس کے بعد یونان پہنچنے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے۔ترکی سے نکلنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی چھ افراد کی گنجائش والی کشتی کا انجن بند ہوگیا جس پر 20 افراد سوار تھے۔کشتی پر سوار بیشتر افراد تیرنا نہیں جانتے تھے مگر اس موقع پر یسریٰ، سارہ اور دیگر دیگر افراد نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور پبھرے پانی میں تین گھنٹے لگاتار تیر کر کشتی کو لیسبوس تک پہنچایا۔وہ اس حوالے سے بتاتی ہیں ” صرف ہم چاروں کو ہی تیرنا آتا تھا، میرے ایک ہاتھ مین رسی تھی جو کشتی سے منسلک تھی اور میں ٹانگوں اور ایک ہاتھ کی مدد سے آگے بڑھ رہی تھی ، ٹھنڈے پانی میں ہم ساڑھے تین گھنٹے تک رہا، میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جو بتا سکے کہ اس وقت میرے جسم کو کیسا محسوس ہورہا تھا”۔
اب وہ کھلے پانی کو پسند نہیں کرتیں مگر یہ ان کے لیے بھیانک خواب نہیں تھا ” مجھے یہ ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ بغیر تیراکی کے میں اب ہوسکتا ہے زندہ نہ ہوتی اور میرے لیے یہ مثبت یاد ہے”۔یونان سے یہ دونوں بہنیں مقدونیہ، سربیا، ہنگری اور آسٹریا سے گزر کر جرمنی پہنچیں ” وہ بہت سخت سفر تھا، اگر کوئی اس منزل تک پہنچنے کے دوران رونے لگے تو وہ کمزور نہیں ہوتا، مگر اکثر اوقات آپ کو بس آگے بڑھتے رہنا ہوتا ہے”۔اولمپکس کے لیے ریو ڈی جنیرو پہنچنے پر یسریٰ کا کہنا تھا ” میں چاہتی ہوں کہ سب یہ سوچیں کہ تارکین وطن عام لوگ ہیں جو اپنے آبائی وطن سے محروم ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اپنے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتے ہیں، ہر ایک نئی اور بہتر زندگی چاہتا ہے، اسٹیڈیم میں داخل ہونے کے بعد ہم تارکین وطن کی ٹیم ہر ایک کے اندر یہ حوصلہ پیدا کرے گی کہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کی جانب بڑھیں”۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حقیقتیں(دوسرا حصہ)


کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…