لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اغوا ء ہونے والے بچوں کی بازیابی کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی جبکہ ریمارکس دیئے کہ اغوا ء کرنے والے گروہ ایک دن میں نہیں بن جاتے جبکہ ریاست کو معلوم ہی نہیں کہ بچے کیوں اغوا ہوتے ہیں ، اغواء کیے گئے بچوں کی بازیابی پہلی ترجیح ہے اور انہیں جلد بازیاب کرایاجائے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹر ی میں بچوں کے اغواء سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے کی ۔ دوران سماعت ایڈیشنل آئی جی پنجاب ندیم نواز، وکیل عاصمہ جہانگیر اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن صبا ء صادق عدالت میں پیش ہوئیں۔ اس موقع پر پولیس افسران نے بچوں کے اغوا ء کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ بچوں کو کس مقصد کے لیے اغوا ء کیا جارہا ہے، بچوں کو اغوا ء کرنے والے گروہ ایک دن میں نہیں بن جاتے اور سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ بچے بازیاب نہیں ہورہے۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ بچہ اغوا ء ہو تو سب سے پہلی ذمہ داری پولیس کی ہے جبکہ ریاست کو معلوم ہی نہیں کہ بچے کیوں اغوا ء ہوتے ہیں تاہم بچوں کے اغوا سے متعلق از خود نوٹس سے ادارے متحرک ہوئے ہیں اور اغوا ء کیے گئے بچوں کی بازیابی پہلی ترجیح ہے اور انہیں جلد بازیاب کرایاجائے۔سول ساسائٹی کی جانب سے وکیل عاصمہ جہانگیرکا کہنا تھا کہ ہم بچوں کی ضمانت کراتے ہیں لیکن مچلکے گینگسٹرز دے دیتے ہیں ۔دوران سماعت سینئر سول جج راولا کوٹ یوسف ہارون بھی پیش ہوئے ۔سول جج نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پانچ سال کے بیٹے سعد کو 2سال پہلے گھر کے باہر سے اغواء کیا گیا لیکن ملزم گرفتار ہونے کے باوجود ان کا بیٹا بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔ سول جج بھری عدالت میں رو پڑے اور رو رو کر عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی مدد سے بیٹے کے اغوا ء کے ملزم شریف ملا کو صوابی سے گرفتار کرایا لیکن پولیس ملزم کی پشت پناہی کررہی ہے اور کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے بیٹے کو بازیابی کروایا جائے۔سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی ہے جس میں سابق صدر سپریم کورٹ بار عاصمہ جہانگیر، چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن صبا صادق بھی شامل ہیں۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ کمیٹی والدین کے ساتھ تعاون کرے اور جن والدین کے ساتھ پولیس کی جانب سے تعاون نہیں کیا جاتا وہ اس کمیٹی میں اپنی شکایت درج کراسکتے ہیں۔ کمیٹی بچوں کی بازیابی کے حوالے سے رپورٹ تیار کر کے تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کریگی ۔عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 25اگست تک ملتوی کردی ہے۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ لاپتہ بچوں کے والدین شکایات کے لئے کمیٹی سے رجوع کریں اور ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی جبکہ چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو صباء صادق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور25اگست کو اقدامات سے عدالت کو آگاہ کریں گے ۔ یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر پنجاب پولیس کی جانب سے 6سالوں کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ چھ سالوں میں 6793بچوں کے اغوا ء یا لاپتہ ہونے کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے 6654بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا اور 139بچے اغوا ء کے کیسوں میں بازیاب نہیں ہو سکے جبکہ مجموعی طور پر بچوں کے اغوا ء کے کیسوں میں 100 میں سے 98فیصد کی بازیابی ہوئی ۔پولیس رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ جنوری 2015ء سے جولائی 2016ء تک 1808بچے اغوا یا لا پتہ ہوئے جن میں سے 1715بچے بازیاب کرائے جاچکے ہیں جبکہ 93بچے تاحال لاپتہ ہیں اور انکی بازیابی کیلئے تفتیش کا عمل جاری ہے ۔
بچوں کے اغوا کا مسئلہ، عدالت پر بھی رقت طاری، جج رونے لگے

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں