واشنگٹن (نیوزڈیسک) امریکا مختلف النوع مسلمان برادریوں کا مسکن ہے، جن کی عمریں، نسل اور آمدن سب مختلف ہیں، باوجود اِس بات کے کہ اسلام دنیا کا تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے، تازہ سروعے کے مطابق سال2050 تک اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا۔وائس آف امریکا کے مطابق 2014 میں ‘پیو رسرچ سینٹر’ کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آئندہ 3 عشروں کے دوران، یعنی 2050ء تک یہ شرح دوگنی ہوجائے گی، جب اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا۔امریکا کے جغرافیائی رقبے کے لحاظ سے مسلمانوں کی آبادی ہر جگہ یکساں شرح سے موجود ہے۔ تاہم، نیوجرسی میں ان کی سب سے زیادہ شرح، یعنی 3 فی صد ہے؛ جب کہ واشنگٹن ڈی سی میں اِن کی تعداد 2 فی صد ہے۔دستیاب تمام اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ آبادی کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے، چونکہ باقی تارکین وطن کی طرح، اس عمر میں لوگ ایک مذہب ترک کرکے دوسرا اختیار کرتے ہیں۔’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ’ کے اندازوں کے مطابق، اس آبادی کا تیسرا حصہ جنوب ایشیائی نڑاد ہے، جب کہ عربوں کی تعداد ایک تہائی کے برابر ہے۔اسی طرح تمام امریکی مسلمانوں میں افریقی امریکیوں کی تعداد ایک تہائی ہے، چونکہ کہا جاتا ہے کہ 1600ء4 کی صدی کے بعد افریقہ سے ترکِ وطن کے دوران، کئی مسلمان غلام بنا کر امریکہ لائے گئے۔1 محقق کے بقول، اِن اعداد و شمار کا معاشی پہلو ”انتہائی دلچسپ” ہے۔ پتا چلا کہ اِن میں سے 34 فی صد سالانہ 30000 ڈالر سے کم جب کہ 20 فی صد 100000 ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔