ہفتہ‬‮ ، 22 فروری‬‮ 2025 

میں فرار نہیں ہوا ۔۔۔!عبدالقادر پٹیل منظر عام پر،بڑا قدم اُٹھالیا

datetime 19  جولائی  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (این این آئی)میں فرار نہیں ہوا ۔۔۔!عبدالقادر پٹیل منظر عام پر،گرفتاری دیدی، سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کیس کے ملزم عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ میں فرار نہیں ہوا تھا بلکہ وکیل دوست سے مشور ہ کرنے گیا تھا۔سیاسی ورکروں کی زندگیوں میں مشکلات آتی رہتی ہیں۔بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں عدالتوں کا سامنا کروں گا۔اگر بھاگنا ہوتا تو لندن سے کراچی نہ آتا۔ سہیل انور سیال کو کوئی جواب نہیں دوں گا کیونکہ وہ وزیر جیل بھی ہیں اور مجھے ابھی جیل جانا ہے۔ضمانت کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کروں گا۔یہ بات انہوں نے بوٹ بیسن تھانے میں گرفتار دینے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرت ے ہوئے کہی۔عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ میں جب عدالت کے لئے نکلا تو مجھے ایک کام تھا جس کی وجہ سے مجھے 20سے 25منٹ کی تاخیر ہوئی ،کام سے فارغ ہو کر جب عدالت پہنچا تو کمرہ عدالت کا دروازہ بند تھا اور کسی کو اندر جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ 5سے 6لوگ باہر آئے اور انہوں نے کہا کہ ضمانت مسترد ہو گئی ہے ہائی کورٹ سے ضمانت لینی پڑے گی۔میں سوچتا ہوا باہر آیا اور اپنی گاڑی کا انتظار کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنے ایک وکیل دوست سے مشورہ لینے چلاگیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ میڈیا پر میرے فرار ہونے کی خبریں چل رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالت میں میری غیر حاضری موجود ہے جو عدالتی ریکارڈ میں چیک کی جا سکتی ہے۔عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ میں رینجرز کے خط پر لندن سے کراچی آیا ہوں اور دوروز تک تفتیش میں بھی شامل رہا جبکہ یہاں پر بھاگنے کا رواج ہے ۔اگر بھاگنا ہوتا تو لندن سے کراچی نہ آتا ۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور عدالت نے بھی حکم دیا ہے کہ مجھے گرفتار کیا جائے میں کہتا ہوں ہاتھ صاف ہونے چاہیے خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہوں ۔30 برس کی سیاست میں کبھی دفعہ 144 کا بھی کیس نہیں بنا ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی ورکروں کی زندگیوں میں مشکلات آتی رہتی ہیں۔ہمارے خلاف منفی پرو پگینڈہ کیا جا رہا ہے ۔ان تمام آزمائشوں سے نمٹیں گے۔بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں عدالتوں کا سامنا کروں گا۔ یہ عزم اور حوصلہ اللہ اور اس کے بعد بیوی کا دیا ہوا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی میں کسی فرد سے رابطہ نہیں کیا اور پارٹی لیڈران کے بھی شایان شان نہ ہوکہ وہ ایک معمولی کارکن سے رابطہ کریں۔کارکن پکڑے جاتے ہیں جیل بھی جاتے ہیں لیکن مزدور اور ڈائر یکٹر میں فرق ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم بار بار جے آئی ٹی میں لگائے الزمات کو مسترد کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے پر الزام ہے کہ میں نے لیاری کے زخمی کو رکشہ میں سوار کرا کے ضیا الدین اسپتال پہنچایا لیکن اس کے شواہد اور میری فون کالز کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ڈاکٹر عاصم ہمارے کہنے پر اچھے کام نہیں کرتے تو برے کیسے کر سکتے ہیں۔سیاسی کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ہم پیشہ ور سیاستدان نہیں ہیں ۔بی بی کو بھی لوگ کہتے تھے کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ کہتی تھی کہ اگر جان کو خطرہ تو پھر سیاست نہ کریں ۔30 برس میں مجھے پر کوئی کیس نہیں بنا اور ابھی بھی خود چل کر آیا ہوں کوئی مجھے پکڑ کر نہیں لایا ہے ۔وزیر ادخلہ سندھ سہیل انور سیال کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ابھی مجھے جیل جانا اورسہیل انور سیال وزیر جیل بھی ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بخارا کا آدھا چاند


رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…