لاہور( این این آئی) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ 31جولائی کو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے قومی مشاورتی اجلاس میں آئندہ کی مشترکہ حکمت عملی طے کی جائے گی ،عوامی تحریک کو بھی متحدہ اپوزیشن کی ٹی او آرز کمیٹی میں شامل کر لیا گیا ہے ،گزشتہ دو سالوں کی ضمنی بجٹ کی دستاویزات کے مطابق پولیس کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد کے بھارت میں علاج معالجے پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے ہیں جبکہ سول محکموں کے ملازمین کا علاج پاکستان میں ہوا ہے ، یہ بڑی تشویش کی بات ہے اور اس کا نوٹس لینا جانا چاہیے ، میں لندن نہیں جا رہا ہوں اور میری وہاں عمران خان سے کوئی ملاقا ت طے نہیں ، نواز شریف کے لندن میں علاج کیلئے جس کلینک کا بتایا جارہا ہے وہاں بائی پاس کے آلات ہی نہیں بلکہ وہ بال لگانے کا کلینک ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی سیکرٹریٹ میں اپنے صاحبزادوں حسن محی الدین، حسین محی الدین ، خرم نواز گنڈا پور اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ 17جون کو مال روڈ پر احتجاجی دھرنا ہوا تھا اور اختتام پر میں نے دھرنا ختم کرنے کی بجائے ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 31جولائی کو عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ میں تین نکاتی ایجنڈے پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا قومی مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں اللہ اور اسکے رسول ؐ کے حکم اور آئین و قانون کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا قصاص اور انصاف ،پانامہ لیکس کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ اور اسکے حوالے سے لائحہ عمل کی تیاری اوراپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کو تیا رکرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کو متحدہ اپوزیشن کی ٹی اور آرز کمیٹی میں شامل کر لیا گیا ہے ،تین رکنی وفد خرم نواز گنڈا پور کی سربراہی میں 19جولائی کو اجلاس میں شرکت کرے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ ٹی او آرز کمیٹی کا آئندہ اجلاس 31جولائی کو عوامی تحریک کے سیکرٹریٹ میں ہی ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمران پاکستان کی سلامتی او ربقاء کیلئے نا قابل برداشت بن چکے ہیں ۔ یہ احتساب کی راہ میں ، اداروں کی مضبوطی ،حقیقی جمہوریت اور عوام کوحقوق دینے سمیت خیر کے ہر کام کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نے 2014-15اور2015-16ء کے ضمنی بجٹ کی دستاویزات کا بغور جائزہ لیا ہے اس میں محکمہ پولیس کے کانسٹیبل اوراے ایس آئی کو علاج کی غرض سے بھارت بھجوانے پر لاکھوں روپے کی مالی معاونت دی گئی ہے جبکہ اسی طرح ان دستاویزات میں سول محکموں کے ملازمین کو بھی علاج کیلئے مالی معاونت فراہم کی گئی ہے لیکن ان کا علاج پاکستان کے ہسپتالوں میں ہی ہوا ہے ۔ بہت سے ایسے نام بھی شامل ہیں جو دوسرے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انکا علاج بھی بھارت میں ہوا ہے اور اسکے اخراجات پنجاب حکومت نے برداشت کئے ہیں ۔ صرف پولیس کے جوانوں کو ایسی کونسی بیماری لا حق ہو گئی ہے جس کا علاج بھارت میں نا گزیر تھا ،یہ بڑی تشویش کی بات ہے ، قومی سلامتی کے ادارے اس کا نوٹس لیں کہ وہاں ان کا علاج ہو رہا ہے یا تربیت ہو رہی ہے ؟۔انہوں نے کہا کہ پاک افغان طورخم باڈر پر کشیدگی ، بھارتی جاسوس کے پکڑے جانے ، ملاں منصور کے ڈرون حملے میں پاکستانی حدود میں مارے جانے اور آج کل بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت اور جارحیت پر بھی نواز شریف کے لب سلے ہوئے ہیں ۔ دو ممالک کے تعلقات میں تو کشیدگی ہے لیکن انکے وزرائے اعظم میں دوستی ہے ۔بتایا جائے نواز شریف کا کیا اسٹیٹس ہے ،انکی پر اسرار اور حیرت انگیز خاموشی کا نوٹس لیا جانا چاہیے ۔اس مرتبہ سعودی عرب حکمرانوں کو پناہ نہیں دے گا اور ہو سکتا ہے کہ انہیں بھارت میں ہی پناہ لینے پڑ جائے۔ انہوں نے لندن میں قیام کے دوران عمران خان سے ملاقات اور کسی پلان کی تیاری کے سوال کے جواب میں کہا کہ جب لندن میں کوئی ملاقات ہی نہیں تو پھر پلان کہاں سے آ گیا ۔ پہلے بات ہے کہ میں لندن نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں جارہا ہوں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ جب میں وہاں پہنچوں تو عمران خان اس وقت تک ملک میں واپس آ چکے ہوں ۔ میں تین سے چار روز قیا م کے بعد وطن واپس آ جاؤں گا اور پاکستان میں ہی طویل قیام کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں ان ہاؤس تبدیلی کو بھونڈا مذاق سمجھتا ہوں کیونکہ چوروں کے ٹولے میں سے ہی کسی دوسرے چور کو اس عہدے پر بٹھا دیا جائے گا ۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ حکومت حالت نزاع میں ہے او راسکی روح جلد پرواز کرنے والی ہے ۔ انہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو آنے کی دعوت دینے کے فلیکسز آویزاں ہونے کے سوال کے جواب میں کہا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف واضح کہہ چکے ہیں کہ وہ توسیع نہیں لیں گے ۔ ہو سکتا ہے حکمرانوں نے فوج کو بدنام کرنے کیلئے یہ سب کچھ خود کیا ہو ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا لندن میں کوئی بائی پاس نہیں ہوا ،جس کلینک میں آپریشن کا بتایا جارہا ہے وہاں بائی پاس کے آلات ہی نہیں بلکہ وہ سر کے بال لگوانے کا کلینک ہے ۔ میں گلوبل شہری ہوں اور مجھ سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ حکمرانوں نے قوم کو بیوقوف بنایا ہے ۔ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری، وزیر اعلیٰ بلوچستان ، وفاقی وزرا اورفیملی فزیشن کو بھی کلینک کے اندر نہیں جانے دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے معاملے میں جب حکمران ہمارے ہاتھ آئیں گے تو ان کا سینہ بھی عوام کو دکھائیں گے اور عوام کو کوئی ٹانکہ نظر نہیں آئے گا۔