برازیلیا (مانیٹرنگ ڈیسک)برازیل میں ماہرین آثار قدیمہ کو پتھروں سے بنے ایسے قدیم آلات کے شواہد ملے ہیں جنھیں بندر استعمال کرتے تھے۔برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے ایسے پتھر دریافت کیے ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سات سو سال پرانے ہیں اور ان کی مدد سے جانور چھلکے توڑ کر خشک میوے نکالتے تھے ٗپتھر کے ان ہتھوڑوں پر کاجو کا صدیوں پرانا تیل لگا ہوا ہے۔یہ ہتھوڑے ایک ایسے علاقے میں درخت کے نیچے دفن ملے ہیں جہاں اب بھی کپوچن بندر رہتے ہیں۔یہ دریافت اس بات کی تازہ ترین شہادت ہے کہ کووں سے لے کر بندروں تک غیر انسانی مخلوق بھی آلات کی مدد سے کام کرتی رہی ہے۔تازہ تحقیق میں آکسفرڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو کی ٹیم شامل تھی جنھوں نے سیئرا دا کیپیوارا نیشنل پارک میں موجود کپوچن بندروں اور اسی مقام سے آثار قدیمہ کے اعداد وشمار کو یکجا کرنے کے بعد اس کا جائزہ لیا۔محققین نے دیکھا کہ جنگلی بندر کھانے کی سخت چیزوں جیسے بیجوں اور کاجو کو توڑ کر نکالنے کے لیے پتھروں کو بطور ہتھوڑی استعمال کرتے ہیں ٗچھوٹے بندر بڑے بندروں سے بالکل ایسا ہی کرنا سیکھتے ہیں۔محققین کی ٹیم کی قیادت آکسفرڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل ہیسلم کر رہے ہیں جو اس سے قبل تھائی لینڈ سے بھی ایسے ہی شواہد پیش کر چکے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بندروں کی ایک نسل کئی دہائیوں تک پتھروں کو آلات کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔آثار قدیمہ سے متعلق طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے اس جگہ پر اعشاریہ سات میٹر کھدائی کی جہاں کاجو کے درخت موجود تھے اور کپوچن بندر مسلسل وہاں اپنے پتھروں کے آلات کو استعمال کر رہے تھے۔محققین نے کھدائی کر کے کل 69 پتھر نکالے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کیا اس تکنیک میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی۔