اسلام آباد (آن لائن) جنرل (ر) احسان الحق نے کہا ہے کہ اکنامی فارن پالیسی کا ہتھیار بن گیا ہے، جو بھی پاور سنٹر میں ہے انکے ساتھ اچھے اور یکساں تعلقات بڑھانے کی ضروروت ہے۔ ہر مرض کی دوا امریکہ اور چین کو نہیں سمجھنا چاہیئے۔ فوج حکومت کا حصہ ہوتی ہے اور تجارتی پالیسیوں میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ سابق ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس، ڈائریکٹر آئی ایس آئی جنرل (ر) احسان الحق نے کہا ہے کہ پاکستان کے تمام ممالک کے ساتھ اقتصادی پالیسی کو بتہر کرنا ہو گا تاکہ دفاع کے ساتھ تمام ممالک سے اقتصادی تعلقات پروان چڑھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں یونی پولٹری ختم ہو کر ملٹی پولٹری میں تبدیل ہو چکی ہے اور اب کوئی بھی ملک سارے انڈے ایک ہی گھونسلے میں ر کھنے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو استوار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت کئی سپر پاور وجود میں آ چکی ہیں اس لئے پاکستان کو ہر ملک سے یکساں تعلقات کی پالیسی بنانا ہو گی اور اس پر عمل کرنا ہوگا اور جو بھی پاور سنٹر ہے اسکے ساتھ تعلقات بڑھانے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ماضی میں امریکہ کو ہر مرض کی دوا سمجھتے رہے ہیں اور اب ہماری توجہ کا مرکز چین بن چکا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے ہمارے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور ہر دفعہ چین نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے لیکن اب ہمیں خود اعتمادی اور اندرونی اتحاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ چائنہ تو خود باتیں کم اور کام زیادہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری لیڈر شپ کو ریجنل، قومی اور بین الاقوامی مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیر برائے خارجی امور سرتاج عزیز کو قابل احترام سمجھتا ہوں اور وہ فارن پالیسی کا کام بڑے احسن طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں جو نیشنل سکیورٹی کونسل بنائی گئی تھی اس میں حکومت، اپوزیشن سمیت تمام صوبوں کو بھی نمائندگی دی گئی تھی اور اس وقت بھی ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ فوج ملک کی تجارتی پالیسی میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی دور میں بھی چاہے نواز شریف کا ہو یا آصف علی زرداری کا فوج نے تجارتی پالیسی میں کبھی بھی مداخلت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ فوج بھی ملک کا حصہ ہوتی ہے اور حکومت سے باہر نہیں ہوتی۔ سی پیک کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک پاکستان کی تقدیر بدل دے گا لیکن اس معاملے میں باتیں کم اور کام زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فارن پالیسی کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ جب ایک ملک کسی دوسرے دوست ملک کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہو تو اسکا نقصان کسی تیسرے ملک کو نہ ہو اور تیسرے ملک کے ساتھ بھی تعلقات خراب نہ ہو سکیں۔