راولپنڈی (آئی این پی)سابق فوجیوں کی تنظیم پیسا نے افغان فوج کی جانب سے طورخم بارڈر پوسٹ پر حملے کے بعد بری افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے غیر لچکدار رویے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ضروری تھا۔ ہمارے محکمہ خارجہ کا ردعمل مایوس کن تھا جبکہ افغانستان کے وزیر خارجہ کو پاکستان آنے کی دعوت جلدی میں دی گئی وہ اپنے ماتحت کو بھیج رہے ہیں جن سے پاکستان کے بھی جونئیر حکام ہی مزاکرات کریں۔مزاکرات سے قبل انھیں بھرپورجوابی کاروائی کا مزہ چکھایا جاتا تو بہتر ہوتا۔ان خیالات کا اظہار پیسا کے صدر جنرل علی قلی خان کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں ایڈمرل تسنیم ائیر مارشل مسعود اختر، جنرل نعیم اکبر، برگیڈئیر میاں محمود، برگیڈئیرمسعود الحسن اور دیگر بھی موجود تھے۔انھوں نے کہا کہ افغان فوج کی جانب سے بلا اشتعال حملہ قابل مزمت ہے جس میں ہمارا جانی نقصان ہوا جبکہ افغان سفیر نے اظہار افسوس کے بجائے دھمکیاں دیں۔ افغان حکومت کسی اور طاقت کی زبان بول رہی ہے جو اس خطہ میں اپنی بالادستی اور مزاکرات کی آڑ میں افغان طالبان کو مغلوب کرنا چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں تیس لاکھ افغان مہاجر ہیں جنھوں نے ہماری معیشت اور سوسائٹی کو کافی نقصان پہنچایا ہے جبکہ انکے کیمپ دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ انھیں واپس بھیجنے سے قبل کیمپوں تک محدود کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں سے کوئی بھی مناسب دستاویزات کے بغیر پاکستان مین داخل نہ ہو سکے ۔آپریشن ضرب عذب آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جو پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جس پر کوئی سودے باری ناممکن ہے۔ بارڈر مینیجمنٹ سسٹم پر افغانستان کا واویلا بے بنیاد ہے اور ہم 2250 کلو میٹر سرحد کو کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ سرحد کا کھلنا خوش آئند ہو مگر یہ صرف ہماری شرائط پر ہی ممکن رہے گا۔ سابق عسکری ماہرین نے کہا کہ امریکی سینٹ کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد پر پابندی کو وارننگ سمجھا جائے جس کے بعد آئی ایم ایف کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اسلئے پاکستانی حکومت کے پاس پلان بی کا ہونا ضروری ہے۔