کراچی(این این آئی)ایم کیوایم کے مرکز نائن زیروکے سیکورٹی انچارج اورصولت مرزا کے قریبی ساتھی منہاج قاضی عرف اسدکی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ (جے آئی ٹی)منظرعام پر آگئی ہے۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ محمد انور کے کہنے پر ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنائی گئی جبکہ ٹارگٹ کلر جعلی پاسپورٹس پر ملک سے فرار ہوتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق صولت مرزا کے قریب ساتھی مہناج قاضی عرف اسد کی جے آئی ٹی رپورٹ مکمل کر لی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ملزم نے1991 میں ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی ۔ مہناج قاضی عرف اسد نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 1997ء کے عام ان انتخابات کے بعد مجھے نارتھ ناظم آباد سیکٹر کا جوائنٹ سیکٹر انچارج بنایا گیا تو اس وقت نارتھ ناظم آباد سیکٹر میں ٹارگٹ کلنگ کی 3 ٹیمیں موجود تھیں۔ ایک ٹیم فہیم کمانڈو کی کمان میں کام کررہی تھی جس میں صولت مرزا عرف عمر، سہیل بنگالی، بوبی، احمد، آصف، انور اور 20 سے 25 ٹارگٹ کلرز شامل تھے۔ 2 نمبر ٹیم میں فاروق دادا، طارق تیمور، تقی محمد جٹ، نعیم شری اور دیگر موجود تھے۔ ملزم نے بتایا کہ صولت مرزا نارتھ ناظم آباد کا رہائشی تھا اور متحدہ کا ٹارگٹ کلر تھا۔ 1993ء میں میرا دوست کامران صولت مرزا کو روپوشی کے لئے میرے گھر گلشن اقبال لایا تھا اور کامران کے کہنے پر میں نے 2 دن صولت مرزا کو اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ اسی دوران صولت مرزا سے دوستی ہوگئی تھی۔ منہاج قاضی نے اعتراف کیا کہ جب میں نارتھ ناظم آباد کا جوائنٹ سیکٹر انچارج تھا تو صولت مرزا نارتھ ناظم آباد سیکٹر میں اپنی ٹارگٹ کلنگ ٹیم چلا رہا تھا۔ ملزم نے بتایا کہ 1997ء میں صولت مرزا نے مجھے بتایا کہ لندن رابطہ کمیٹی کے ممبر محمد انور نے اس کو لندن سے فون کرکے اپنی الگ ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ صولت مرزا کے علاوہ لندن سے رابطہ کمیٹی کے ممبر ندیم نصرت بھی سہیل بنگالی کی ٹیم کو ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ محمد انور کے کہنے پر صولت مرزا نے جب ٹارگٹ کلنگ ٹیم بنائی اس میں صولت مرزا، خرم بکری، فاروق کنڈی، ضیاء عباس، بوبی اور دیگر شامل تھے۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ 1997ء اور 1998ء میں کراچی آپریشن کی وجہ سے ایم کیو ایم مرکز کی طرف سے حکم دیا گیا کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لئے رات کو اپنے گھروں پر نہ سوئیں جس پر ملزم اپنے دوست سعود کے گھر فائیو اسٹار اپارٹمنٹ گلشن اقبال میں سویا کرتا تھا اور اس بات کا صولت مرزا کو بھی پتہ تھا۔ ملزم نے بتایا کہ 1997ء میں صولت مرزا اپنی کار پر فائیو اسٹار اپارٹمنٹ آیا اور ملزم کو اپنے ساتھ گلشن چورنگی لے گیا۔ وہاں ملزم اور صولت مرزا نے اپنے دیگر ساتھیوں راشد اختر اور اطہر کے ہمراہ ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد کو ٹارگٹ کرنے ڈیفنس کی طرف روانہ ہوئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ میں، صولت مرزا، راشد اختر الگ الگ کاروں میں کلاشنکوفوں سے لیس ہو کر ڈیفنس مین لائبریری گئے اور وہاں شاہد حامد کی گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ تقریباً 9 بج کر 30 منٹ کے قریب شاہد حامد کی گاڑی ملزم اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے گزری تو صولت مرزا نے شاہد حامد کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں شاہد حامد، ان کا گن مین اور ڈرائیور ہلاک ہوگئے۔ ملزم نے بتایا کہ دوران واردات میں کلاشنکوف سے مسلح بیک اپ پر تھا۔ واردات کے بعد صولت مرزا نے مجھے گلشن اقبال ڈراپ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایم ڈی کے ای ایس سی کو قتل کرنے کا حکم لندن سے محمد انور نے دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ایم ڈی کے ای ایس سی کے قتل کے بعد صولت مرزا سری لنکا فرار ہو گیا تھا۔ محمد انور کے کہنے پر میرے دوستوں نے مالدیپ میں روپوشی اختیارکی۔ملزم نے بتایا کہ 2004-05ء کے دوران جب میں کورنگی سیکٹر میں نگران کمیٹی کا ممبر تھا تو میرے حکم پر کورنگی سیکٹر کے ٹارگٹ کلر آصف عرف آلو، سعید کالا اور عتیق لمبا نے فائرنگ کرکے ایم کیو ایم حقیقی کے کارکن کے شبہ میں ثاقب اور اس کے دوست سابق یوسی ناظم فہیم کو قتل کیا تھا۔ ملزم نے بتایا کہ محمود صدیقی 30 سے 35 افراد کو را کی ٹریننگ کے لیئے بھارت بھیج چکا ہے۔ صفدر باقری کینڈا اور جنوبی افریقہ میں ٹارگٹ کلنگ ٹیم کو روپوش کرواتا تھا۔ مہناج قاضی عرف اسد کی جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مختلف ٹارگٹ کلر جعلی پاسپورٹ پر ملک سے فرار ہو تے ہیں۔ نائن زیرو کے اطراف میں ٹارگٹ کلرز روپوش ہوتے تھے۔