کراچی : حال ہی میں پاکستانی محققین نے گھریلو کوڑے کرکٹ میں شامل پلاسٹک کو انتہائی جدید طریقے سے ری سائیکل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ طریقہٴ کار پلاسٹک پر مشتمل کوڑے کو جہاں ٹھکانے لگاتا ہے وہاں ماحول دوست بھی ہے۔ پاکستان میں اس طریقہ کار سے متعلق تجربات حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم اور معدنیات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحت علی کی زیر نگرانی انجام دیے گئے ہیں۔ کراچی کے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈکٹر رضا شاہ بتاتے ہیں کہ پلاسٹک ری سائکلنگ کا یہ طریقہ نہایت ماحول دوست ہے، ’’یہ ایک ایسا پراسس ہے جس میں پلاسٹک کا کوڑا فیول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں خاص طور سے کراچی کے جو بڑے مسائل ہیں ان میں سے ایک آلودگی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پلاسٹک کا کوڑا ہے جس میں پولیتھن بیگ کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو ماحول میں شامل ہو کر تلف نہیں ہوتے اور مختلف بیماریوں کو جنم دیتے ہیں۔‘‘ٹرشری ری سائیکلنگ کو فیڈ سٹاک ری سائیکلنگ کا نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں پلاسٹک دراصل ان بنیادی کیمائی مادوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جن سے مل کر یہ بنتا ہے یا پھر اسے بنیادی ہائیڈرو کاربن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس تمام پراسس کے حوالے سے ڈاکڑ رضا شاہ بتاتے ہیں، ’’اس عمل میں پلاسٹک کو ایک کیٹالسٹ یعنیٰ ایسا مادّہ جو دُوسرے مادّوں میں کیمیائی عمل کو تیز کرتا ہے، اس کی موجودگی میں پلاسٹک کو حرارت دی جاتی ہے۔ اس سے پلاسٹک میں شامل پولیمر کو توڑ کر ہائیڈرو کاربن کے مالیکیولز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، جو فیول کے طور پاستعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہائیڈرو کاربن عام طور پر پیٹرول اور ڈیزل میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے جو طریقہ اختیار کیا اس میں ہم نے کیٹالسٹ تیار کیا وہ عام مٹی تھی جسے ریفائین کیا گیا اور کیٹالسٹر بنایا۔ اس کے علاوہ ہم نے ایک سادہ سا آلہ یا apparatus تیار کیا جسے حرارت دے کر کیٹالسٹ کو استعمال کر تے ہیں اور پلاسٹک کو ہائڈروکاربن میں تبدیل کرتے ہیں۔ تو یہ ایک سادہ سا پورا پراسس ہے جس میں کوئی بہت ہائی ٹیکنالجی نہیں استعمال نہیں ہوتی۔‘‘ڈاکٹر رضا کے مطابق اب تک جو تجربات کیے گئے ہیں اس کے مطابق یہ تمام پراسس صرف سات گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ کوڑا جمع کرنا اور ٹھکانے لگانے کا کام ایک صنعت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ڈاکٹر رضا شاہ کے مطابق فیڈ اسٹاک ری سائیکلنگ کے ذریعے پلاسٹک کو فیول یا دوسرے خام مال میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ کوڑے سے حاصل ہونے والے پلاسٹک کو جب خام فیول کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے تو یہ زیر زمین پائے جانے والے خام تیل سے بہتر ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک سے حاصل ہونے والے خام تیل میں سلفر اور اس جیسے دوسرے عناصر کی بہت ہی کم مقدار ہوتی ہے۔ اس تمام طریقہ کار کے تجارتی استعمال کے حوالے سے ماہرین کافی پر امید ہیں۔ کیونکہ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والا تمام خام مال بالکل مفت ہے۔ تاہم یہ چیز یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک کے کوڑے کو باقاعدگی کے ساتھ جمع کیا جائے اور اسے ری سائیکلنگ کے مرکز تک پہنچانے کا مناسب انتظام کیا جائے۔خاص بات یہ ہے کہ کوڑے سے حاصل ہونے والے پلاسٹک کو مختلف اقسام میں علیحدہ علیحدہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ یہ طریقہ پلاسٹک کی تمام اقسام کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ ٹرشری ری سائیکلنگ یا فیڈ اسٹاک ری سائیکلنگ کو مختلف آئل ریفاینریز میں بغیر کسی اضافے سرمائے کے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر رضا کے مطابق ڈاکٹر فرحت علی نے پاکستان کی چند ریفائنریز کے ساتھ اس حوالے سے رابطہ کیا لیکن انہیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ تاہم ڈاکٹر رضا شاہ کے مطابق ٹرشری ری سائیکلنگ کے منصوبے پر کام کرنے والی یہ ٹیم ہالینڈ کی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جو اس منصوبے کے لیے بیس ہزار ڈالر کا سرمایہ مہیا کر ے گی۔ ابتدائی مرحلے کا آغاز ہور گیا ہے اور تین برس کے عرصے میں اس منصوبے کو مارکیٹ کرنے کا امکان ہے۔