جمعرات‬‮ ، 21 اگست‬‮ 2025 

وزیراعظم کا پاناما لیکس کے معاملے پر عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان

datetime 5  اپریل‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیو زڈیسک) وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف نے اپنے خاندان پرلگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈجج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ گھسے پٹے الزامات دہرانے اورروز تماشہ لگانے والے کمیشن کے پاس جاکرالزامات ثابت کریں، کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے اپنے نام پر کمپنیاں یا اثاثے نہیں رکھتے ، الزامات کی تازہ لہر کے مقاصد خوب سمجھتا ہوں لیکن توانائیاں اس کی نذر نہیں کرنا چاہتا،جبری جلاوطنی کے ایام میں میرے والدمحترم کی طر ف سے مکہ معظمہ کے قریب لگائے گئے سٹیل کے کارخانے کی فروخت سے حاصل وسائل کومیرے بیٹوں حسن اورحسین نے کاروبارکیلئے استعمال کیا، خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی، اقتدار کو کاروبار سے کبھی منسلک نہیں کیا،وہ قرض بھی اتارے جو ہم پرواجب نہیں تھے، سال ہاسال تک یکطرفہ احتساب کے پل صراط پرچلتے رہے لیکن کسی بھی عدالت میںہمارے خلاف لگائے گئے الزامات کوثابت نہیں کیاجاسکا،ہمارے بچے ملک میں کمائیں تو تنقید اورباہرکاروبارچلائیں توالزامات لگتے ہیں۔منگل کی شب وزیراعظم محمدنوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں پہلی بار ذاتی حیثیت میں آج کچھ کہنے کیلئے حاضر ہوا ہوں مجھے اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کچھ لوگ سیاسی مقاصد کیلئے مجھے اورمیرے خاندان کو نشانہ بنارہے ہیں پچیس سال پرانے الزامات کو بار بارمیڈیا پراچھالاجارہاہے ان الزامات کی حقیقت کیاہے میں قوم کے سامنے رکھناچاہتاہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگاسکیں کہ ان الزامات کی حقیقت کیاہے۔انہوں نے کہاکہ قیام پاکستان سے کئی سال قبل میرے والد صاحب نے لاہور سے کاروبارکاآغاز کیا اوراتفاق فاﺅنڈری کی بنیاد ڈالی قیام پاکستان تک یہ ایک مستحکم اورمضبوط صنعتی ادارہ بن چکا تھا اوراس کی ایک برانچ ڈھاکہ میں بھی تھی یہ صنعتی ادارہ ہزاروں خاندانوں کو روزگار کی فراہمی کاذریعہ بن چکاتھا اور قومی خزانے میں ٹیکسوں کی صورت میں اپناحصہ ڈال رہاتھا اتفاق فاﺅنڈری 16دسمبر1971ءکو سقوط ڈھاکہ کی نذر ہوگئی اور2 جنوری1972ءکو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے لاہور میں اتفاق فاﺅنڈری پرقبضہ کرلیا یہ مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سٹیل اورمشینری اورانجینئرنگ کی سب سے بڑی صنعت بن چکی تھی 1936ءسے ہمارے بزرگوں کی سرمایہ کاری اورمحنت اورجمع پونجی ایک لمحے میں ختم کردی گئی یہ ظلم وزیادتی ہمارے والد مرحومکے عزم میں کوئی کمزوری پیدا نہیں کرسکی الحمداللہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ایک مرتبہ پھر کمرباندھی اورپھربھٹو دورمیں ہی 18ماہ کے اندر 6چھ نئی فیکٹریاں قائم کرلیں یہ وطن کی مٹی سے محبت عزم لگن کی ایسی روشن مثال داستان ہے جس کی مثال کم ہی ملے گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ اتفاق فاﺅنڈری جولائی1979ءمیں ہمیں کھنڈرات کی شکل میں واپس ملی ہمارے والد نے تباہ شدہ مالی حالت والے اس اجڑے ہوئے ڈھانچے کو دوبارہ ایک جاندار صنعتی ادارے کی شکل دی۔ انتہائی مشکل اورناسازگار حالات میں عزم وہمت کی اس داستان کاتعلق اس دور سے ہے میرے ہم وطنوں جب میں نیا نیا یونیوسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اورمیرا یامیرے خاندان کے کسی فرد کاسیاست یاحکومت حکومت سے دور کابھی کوئی تعلق نہ تھا اس عرصے کے دوران یہ ادارے ملک کی معاشی ترقی میں ایک توانا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی خزانے میں کروڑوں روپے کے ٹیکس اورمحصولات جمع کراتے رہے اس زمانے میں۔میاں محمدنوازشریف نے کہاکہ جب ہم سیاست سے کوسوں دور تھے تو بھی ابتلاءاورآزمائش سے گزرنا پڑا اور سیاست میں آنے کے بعد بھی ہم سیاسی اورذاتی انتقام کانشانہ بنتے رہے آپ میں سے بہت سے خواتین وحضرات کو یاد ہوگا کہ1989ءمیں ہماری فیکٹری کاخام مال لانے والے بحری جہاز”جوناتھن“ کو ایک سال تک سامان اتارنے کی اجازت نہ دی گئی جس سے ہمیں 50 کروڑ کانقصان برداشت کرنا پڑا۔1989ءکی بات کررہاہوں اس وقت کا50 کروڑ شاید آج کے50 ارب سے بھی زیادہ ہو۔ پیپلزپارٹی کے دوسرے دور میں بھی ہمارے کاروبار کی معاشی ناکہ بندی کی گئی اورمختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اتفاق فاﺅنڈریز کی چمنیاں ٹھنڈی کردی گئیں۔1999ءمیں جمہوری حکومت کاتختہ الٹنے کے بعد جو کچھ ہوا اس سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔14 ماہ تک ہمیں جیلوں میں ڈالے رکھا گیا ہمارے کاروبار کو ایک بار پھر تباہ کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ماڈل ٹاﺅن میں ہمارا آبائی گھربھی چھین لیا گیا جہاں ہم، ہمارے والدین اورہمارے بچے رہتے تھے ہمیں ملک بدر کردیا گیا ساری حکومتی مشینری کو ہمارے کاروبار، بنک کھاتوں ،صنعتی یونٹس اوردیگر معاملات کیلئے رحمانہ احتساب پرلگادیاگیا یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ سال ہاسال تک ہم اس یکطرفہ احتساب کی پل صراط پرچلتے رہے لیکن اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے قدم نہ ڈگمگائے ہم قانون اورانصاف کے ہرمعتبر فورم سے سرخرو ہوکرگزرے کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف کوئی الزام ثابت نہ کیاجاسکا جبری جلاوطنی کے ایام میں ہمارے والد محترم نے ایک بار پھرمکہ معظمہ کے قریب سٹیل کا ایک کارخانہ لگایاجس کیلئے سعودی بینکوں سے قرض حاصل کیا گیا، چند برس بعد یہ فیکٹری تماماثاثوں سمیت فروخت کدی گئی اور یہ وسائل میرے بیٹوں حسن اور حسین نے اپنے نئے کاروبار کیلئے استعمال کئے میں یہاں یہ بھی بتا دوں کہ حسن نواز 1994ءسے لندن میں مقیم ہے جب کہ حسین 2000ءسے سعودی عرب میں رہائش پذیر ہے، دونوں ان ممالک کے قوانین اور قواع وضوابط کے مطابق اپنے کاروبار میں مصروف ہیں، عجیب منطق ہے کہ ہمارے بچے ملک کے اندر رزق حلال کمائیں تو بھی تنقید اور اگر بیرون ملک محنت کر کے اپنا کاروبار قائم کریں اور چلائیں تو بھی الزامات کی زد میں رہتے ہیں، میں صرف اتنا کہوں گا کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پر کمپنیاں ر کھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پر رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ مختلف ادوار میں اتفاق فاﺅنڈریز کی مکمل تباہی کیلئے بار بار کے حملوں کے باوجود میرے خاندان نے واجب الادا قرضوں کی ایک ایک پائی ادا کی جس کی مالیت تقریبا پونے چھ ارب روپے بنتی ہے، ہمارے خاندان نے اصل زر یا مارک اپ کا ایک پیسہ بھی کبھی معاف نہیں کرایا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نے تو وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب بھی نہ تھے، انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ہمارے کاروبار کا یہ سارا پس منظر آپ پر واضح ہوگیا ہوگا، میں نے اس سفر کے تمام اہم مراحل سے آپ کو آگاہ کردیا ہے ، صرف اتنا مزید کہہ دونگا کہ حکومت سے باہر یا حکومت کے اندر ہوتے ہوئے میں نے یا میرے خاندان کے کسی فرد نے قومی امانت میں رتی بھر خیانت نہیں کی اور کبھی اقتدار کو کاروبار سے منسلک نہیں کیا ، وزیراعظم نے کہا کہ میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن انتہائی مختصر طور پر کچھ گزارشات پیش کی ہیں، میں نے وطن عزیز کو اندھیروں سے پاک کرنے اور تعمیر وترقی کی نئی بلندیوں کی طرف لے جانے کا عہد کررکھا ہے، میری تمام تر توجہ اس عہد پر مرکوز ہے، میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہر روز الزامات کی یلغار کرنیوالوں کو جواب دوں اور وضاحتیں پیش کروں میں الزامات کی تازہ لہر کے مقاصد خوب سمجھتا ہوں لیکن توانائیاں اس کی نذر نہیں کرنا چاہتا۔ میرے بعض رفقاءکا مشورہ تھا کہ چونکہ میری ذات پر کوئی الزام نہیں ہے اور یہ کہ میرے دونوں بیٹے بالغ اور اپنے معاملات کے خود نگہبان ہیں ۔ اس لیے مجھے اس معاملے سے الگ رہنا چاہئے ۔ بعض رفقاءکا خیال تھا کہ میرے خطاب سے اس معاملے کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہو جائے گی ۔ کچھ رفقاءکا کہنا تھاکہ میری ذات یا میرے خاندان کے کسی فرد پر کسی غیر قانونی یا نا جائز کام کا کوئی الزام نہیں لگا ۔ اس لیے مجھے اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں لیکن میرے عزیز اہل وطن ! میں چاہتا ہوں کہ اصل حقائق پوری طرح کے سامنے آ جائیں اور ہر پاکستانی الزامات کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو جائے ۔ آج میں نے ایک ا علیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے سپریم کورٹ کے ایک ریٹارڈ جج اس کمیشن کے سربراہ ہوں گے یہ کمیشن اپنی تحقیقات کے بعد فیصلہ دے گا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور الزامات میں کتنا وزن ہے ۔ میں گھسے پٹے الزامات دہرانے اور روزتماشا لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس کمیشن کے سامنے آ جائیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…