اسلام آباد (نیوز ڈیسک) حکومت پاکستان اور روس کے ساتھ مل کر دو بلین گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ جس پر سرمایہ کاری روس کی ہوگی اور ہم صرف گیس کے پیسے دیں گے۔-سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم مصنوعات اور قدرتی وسائل کا اجلاس سینیٹر طلحہ محمود کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی میں بتایا گیا کہ چترال سے ڈی آئی خان تک سی پی جی صرف ایک ریجنل حب ہے۔ جبکہ چترال میں سات اضلاع ہیں۔ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چار سالوں چوبیس ایل پی جی پلانٹ لگائے جائیں گے۔ جبکہ رواں سال چار پلانٹ ضلع آوران ‘ قلعہ سیف اﷲ اور یوگ سمیت دیگر پلانٹ پر کام مکمل کرلیا جائے گا۔ جبکہ دوسری لاٹ میں لورالائی ‘ موسیٰ خیل اور دیگر پر کام مکمل ہوجائے گا۔ سینیٹر اعظم خان نے کہا کہ ایل پی جی حکام باتیں کرتے ہیں لیکن کام کچھ بھی نہیں کرتے۔ موسیٰ خیل میں ایل پی جی پلانٹ کے حوالے سے کمیٹی کو مکمل آگاہ کیا جائے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ موسیٰ خیل میں ایل پی جی پلانٹ کیلئے کمیٹی کو خط لکھیں جس پر سینیٹر اعظم خان نے کہا میں خط نہیں لکھوں گا بلکہ چیئرمین سینیٹ سے بات کروں گا۔ ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی گیس شاہد خاقان عباسی نے کمیٹی کو بتایا کہ ایران پر پاکستان کی جانب سے پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں لیکن ابھی بھی کچھ بین الاقوامی پابندیاں باقی ہیں جونہی پابندیاں ختم ہوں گی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن پر کام شروع ہوجائے گا۔ جبکہ حکومت پاکستان اور روس کے ساتھ مل کر دو بلین گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ جس پر سرمایہ کاری روس کی ہوگی اور ہم صرف گیس کے پیسے دیں گے۔ کے پی کے پی ایس او کے شیئرز کے حوالے سے بتایا گیا کہ اوگرا میں نئے پیٹرولیم پمپ لگانے پر پابندی لگا رکھی ہے اور پیٹرول کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے شیئرز میں بھی کمی آتی ہے۔ اگر پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو شیئرز کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور اگر پیٹرول سستا ہوتا ہے تو شیئرز کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ شیئرز کی قیمت کے بڑھنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ کمی کی صورت میں سرمایہ کاری میں کمی آجاتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے پی ایس او حکام سے کہا کہ آپ نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے شیئرز میں کمی آئی ہے۔ اور دھرنے کے اگلے ہی مہینے شیئر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کے بعد بدترین کمی آنا شروع ہوجاتی ہے اس کی کیا وجہ ہے۔ جس پر پی ایس او حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی وجہ سے سیئرز کی قیمتیں کم ہوتی جارہی ہیں پی ایس او میں نئے ملازمین کی بھرتیوں کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ تمام بھرتیاں میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں جس میں کسی صوبے کے کوٹے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ جس پر سینیٹر تاج محمد آفریدی نے کہا کہ یہ ایک ملکی ادارہ ہے جس میں تمام صوبوں کا بنیادی حق ہے۔ آپ کے میرٹ کے ساتھ ساتھ کوٹہ سسٹم کا بھی خیال رکھیں۔ فاٹا سے ایک بھی بندہ پی ایس او میں نہیں لیا گیا۔ اور بلوچستان سے انٹرن شپ پر کام کرنے والے ملازمین کے حوالے سے بھی کمیٹی نے پوچھا کہ ان کو مستقل کب کیا جائے گا اور چیئرمین کمیٹی نے پی ایس او حکام سے کہا کہ نئی بھرتیوں میں کوٹہ سسٹم کا خاص خیال رکھا جائے اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انٹرنیز کو مستقل کیا جائے اور مردان میں سی این جی کے ریجنل حب کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی این جی حب کیلئے تقریباً سو ملین درکار ہیں اور ہمارے پاس آفس جگہ نہیں اور یہ حکومت پر اضافی بوجھ ہوگا۔ جس پر سینیٹر سرداراعظم خان نے کہا ہے کہ اگر لاہور اور سیالکوٹ میں علیحدہ علیحدہ حب بن سکتے ہیں تو مردان میں کیوں نہیں آخر میں کمیٹی چیئرمین نے کہا ہم اپنے تمام محکموں سپورٹ کرتے رہیں گے اگر پیٹرولیم وزارت چاہے ملک سے غربت و افلاس کا خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ ملک میں ٹریلین کے حساب سے وسائل موجود ہیں۔