واشنگٹن (نیوز ڈیسک)امریکا نے ایک مرتبہ پھر سے پاکستان کو اپنا ایٹمی صلاحیت محدود کرنے اور نیوکلیر اسلحہ کا ذخیرہ کم کرنے کی صلاح دی ہے۔ یہ معاملہ پیر کو ہونے والے باہمی وزارتی مذاکرات کے ایجنڈے پر تھا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور وزیر اعظم نوازشریف کے مشیر برائے امور خارجہ کے مابین اسٹریٹجک مذاکرات کا چھٹا دور ہوا جس میں 6مختلف موضوعات پر پیشرفت زیر غورآئی۔اجلاس سے قبل اپنے افتتاحی بیان میں سیکرٹری خارجہ جان کیری نے کہا کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اسلحے میں کمی پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی تحفظ دونوں ممالک کے لیےواضح خدشہ ہےاور دونوں ممالک آئندہ برسوں میں ایٹمی اسلحے کی حامل ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے ذمہ داریوں پر بات چیت کرناجاری رکھیں گے۔انہوں نے اپنے اس نکتے کی وضا حت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دور میں امریکا کے پاس 50 ہزار ایٹمی ہتھیار تھے جو دوسرے علاقوں یا ممالک کی جانب رخ کیے ہوئےتھے، سوویت یونین نے بھی اسی طرح کا جواب دے رکھا تھا۔ پھر صدر گورباچوف اور صدر ریگن اس چیز کا فیصلہ کرنے کےلیے ملے جس کا کوئی تک نہیں بنتا تھااور پھر ہم دونوں نے بالکل الٹی سمت میں چلنا شروع کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک معاہدے پر عمل کرتے رہے ہیں جس کے تحت ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد گھٹا کر 1500یا اس کے قریب تک لانا مقصود تھی، ہم اسے بھی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کےلیے اہم یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو عمل میں لائے اور اسے اپنی پالیسی کا چہرہ مہرہ اور مرکز بنائے۔سیکرٹری اسٹیٹ نے مزید کہا کہ یہ معاملہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ اٹھایا جائے گا جب وہ رواں ماہ کے آخر میں نیوکلیئر سیکورٹی سمٹ میں شرکت کےلیے آئیں گے۔پاکستان کی جانب سےردعمل میں کہاگیاکہ پاکستان کی ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی تاریخ ہے۔جنگ رپورٹر واجد علی واجد کے مطابق اور اس معاملے کو مغر ب یا مشرق سے لیے گئے مستعار چشموں سے دیکھنےکے بجائے چاہئے یہ کہ پاکستان کو اس کی اپنی تزویراتی اسپیس کے اندر برداشت کیا جا ئے ۔ انہوں نے ایک نیا آٹھ نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں اسٹریٹجک مذاکرات کو شامل کرتے ہوئے نیو کلیئر دھارے میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ۔ ان ک کہنا تھا کہ عدم پھیلائو اور اسٹریٹجک استحکام کے عمل میں ہماری شرکت جاری رہے گی اور پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا پاکستان کے سلامتی کے حوالے سے خدشات کو بہتر طو ر پر سمجھے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ فعال طور پر ایٹمی طاقتوں کے سواد اعظم (مرکزی دھارے) میں اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس کا ایٹمی اسلحہ اس کی ڈھال کےلیے ہے اور یہ کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام پر یکطرفہ طور پر ایسی کوئی پابندی قبول نہیں کرےگا جو بھارت پر بھی عائد نہ ہوتی ہو۔