دنیا کے تین چوتھائی گھروں میں فریج موجود ہیں لیکن بھارت میں ایک درزی اپنے گاؤں کا پہلا شخص ہے جس نے فریج خریدا ہے اور وہ بھی دس سال تک پیسے جوڑنے کے بعد۔
سنتوش چوہدری بےقراری سے اپنے موبائل پر بات کر رہے ہیں۔
’اور کتنی دیر ہے؟ آٹو رکشہ سٹینڈ سے نکل آئے ہو، ہاں ٹھیک ہے،‘ وہ زور سے بولے۔
سنتوش نے نیا فریج خریدا ہے ۔ یہ محض ان کا پہلا فریج نہیں ہے بلکہ 200 افراد پر مشتمل کلکتہ کے شمال مشرقی کنارے پر واقع رامیشور پور گاؤں کا پہلا فریج ہے ۔ سنتوش کا کہنا ہے: ’ہمارے ایسے گاؤں میں فریج کا مالک ہونا بہت نایاب بات ہے۔‘
رامیشور پور میں فریج کی قلت پورے بھارت میں موجود صورت حال کی عکاس ہے۔ ملک کے ہر چار میں سے صرف ایک گھر میں فریج موجود ہے۔
لیکن بھارت کی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کے باعث حالات تبدیل بھی ہو سکتے ہیں ۔ سنہ 2004 میں چین کے 24 فی صد گھروں میں فریج تھے لیکن دس سال بعد یہ تعداد بڑھ کر 88 فی صد ہو گئی۔
سنتوش کہتے ہیں: ’ہم اپنے خاندان کی پہلی نسل ہیں جن کے پاس فریج ہے ۔ میرے باپ دادا کے زمانے میں کسی نے فریج دیکھا تک نہیں تھا۔‘
رامیشور پور ایک روایتی دیہی منظر پیش کرتا ہے۔ لوگ گاؤں کے بیچوں بیچ موجود ایک تالاب میں نہاتے ہیں۔ بچے گرد آلود گلیوں میں پتنگیں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ گھر کسی کٹیا سے تھوڑے ہی بہتر ہیں اور اینٹوں اور گارے سے بنے ہوئے ہیں۔ البتہ گاؤں میں بجلی موجود ہے اور کئی گھروں میں ٹی وی بھی ہیں۔
سنتوش کی اہلیہ سوشوما ہر روز گھر کے باہر لکڑیوں پر کھانا پکاتی ہیں۔ ان کے پاس بچے ہوئے کھانے کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں اس لیے سنتوش کو ہر روز صبح سویرے سودا سلف خریدنے جانا پڑتا ہے۔ فریج کے آنے سے ان میاں بیوی کی یہ پریشانی تو ختم ہوئی۔
سنتوش درزی کا کام کرنے کے علاوہ ایک فیکٹری میں پارٹ ٹائم کام بھی کرتے ہیں اور ایک دن میں تین سے چار ڈالر کما لیتے ہیں۔ سنتوش نے 11000 روپے کا یہ نیا فریج قسطوں پر لیا ہے۔
بالآخر فریج سنتوش کے گھر پہنچ گیا۔ مشتاق لوگوں کے ہجوم میں مذہبی تقریب ادا کی گئی اور سوشوما نے فریج کو تلک لگایا تاکہ یہ نظرِ بد سے محفوظ رہے۔
کئی ہمسائے سوشوما سے فریج میں اپنی اشیا رکھنے کی بات کر چکے ہیں اور سوشوما کو انتظار ہے کہ وہ فریج کا ٹھنڈا پانی پی سکیں۔