کراچی(نیوزڈیسک)ایتھوپیا کے ایک قدیم قبیلے کی خواتین خوب صورت نظر آنے کیلئے نچلے دانت نکلوادیتی ہیں۔ ناصرف یہ بلکہ وہ بلیڈ اور نویکے کانٹوں کے ذریعے اپنے جسم پرخوب صورتی کی غرض سے مختلف نشانات بھی گدوالیتی ہیں۔ان خواتین کی خوبصورتی سے متاثر ہوکریہاں کے مرد کئی کئی شادیاں کرلیتے ہیں جن کی کوئی تعدادبھی متعین نہیں۔اس انوکھیقبیلے میں امیری اور غریبی کا تعین گائے کی تعداد سے ہوتا ہیاورلوگ گائے کادودھ پینے کے بجائے اس کا خون پیتے ہیں۔ یہ ذکر’’سرما‘‘ نامی قبیلے کا ہے جو اپنے قدیم رسومات اور عقائد کی وجہ سے مشہور ہے۔’’سرما‘‘ ایتھوپیا میں سوری، مرسی اور میئن قبیلوں کے مجموعے کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ یہ تینوں گروہ ایتھوپیا کے جنوب مغرب اور جنوبی سوڈان میں آباد ہیں۔ کہا جاتا ہیکہ یہ لوگ دو سو سال قبل دریائے نیل کے کنارے سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔یہاں کی نوجوان خواتین ،خوب صورت نظر آنے کے لیے اپنے نچلے دانت نکلوادیتی ہیں اور پھر نچلے ہونٹوں کوچھید کراور کھنچوا کر اس میں مٹی کی پلیٹ لگوالیتی ہیں جو 16 انچ قطر تک کی ہوتی ہیں۔یہ کام لڑکی کی ماں یا پھر گھر کی کوئی بڑی خاتون ہی کرتی ہے۔ابتداء4 4 میں چار سینٹی میٹر قطر کی پلیٹ لگائی جاتی ہے پھر زخم بھرنے پر پلیٹ کے سائز میں اضافہ کیا جاتا ہے۔بچوں کے کانوں میں بھی ٹھیک اسی طرح مٹی کی پلیٹ لگوائی جاتی ہے۔جس لڑکی کے ہونٹوں میں لگی پلیٹ جتنی بڑی ہوتی ہے، اسے اپنیہونے والے شوہر سے اتنے ہی زیادہ چوپائے ملنے کی امید ہوتی ہیاور قبیلے کا ہر امیر مرد اس سے شادی کا خواہش مند ہوتا ہے۔ یہاں مرد،عموماً کئی کئی شادیاں کرتے ہیں اور ان کی کوئی تعداد متعین نہیں لیکن ایک گھر میں صرف ایک بیوی ہی ہوتی ہے جو اس گھر کی مالک ہوتی ہے۔مرد ذاتی طور پر کسی گھر کا مالک نہیں ہوتا البتہ وہ اپنی کسی بھی بیوی کے گھر میں رہ سکتا ہے۔اس قبیلے کی ایک عجیب و غریب رسم یہ بھی ہے کہ قبیلے کا ہر فرد اپنے جسم پر بلیڈ اور کانٹوں کے ذریعے مختلف نشانات لگاتا ہے۔یہ انتہائی دردناک عمل ہوتا ہے۔ خواتین یہ نشانات اپنے جسم پرزیب و آرائش کے طور پر کندا کرواتی ہیں جبکہ مرد یہ نشانات دشمن قبیلے کے کسی فرد کو قتل کرنے کے بعد کندا کرواتے ہیں۔اس قبیلیکے مرد اپنے چوپایوں کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ عام طور پر قبیلے کے ہر مرد کی ملکیت میں 30 سے 40 گائیں ہوتی ہیں۔قبیلے میں امیری اور غریبی کا تعین بھی گائے کی تعداد سے ہوتا ہے۔کسی مرد کو شادی کی اجازت اس وقت تک نہیں ملتی ہے جب تک اس کے پاس کم ازکم 60 گائیں نہ ہوں۔شادی کے بعد اسے اپنے چوپائے اپنے سسرال والوں کو دینے پڑتے ہیں۔چوپائے کی پیدائش اور موت پر مخصوص گیت گائے جاتے ہیں۔ خشک موسم میں یہ لوگ چوپایوں کا دودھ پینے کے بجائے ان کا خون پیتے ہیں۔یہ لوگ ’’توما‘‘ نامی آسمانی خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ہر قبیلے میں ایک روحانی پیشوا ضرور ہوتا ہیجس کا کام قبیلے کے لوگوں کی دعاؤں کو ’’توما‘‘ تک پہنچانا ہوتا ہے۔جب قبیلے کے افراد محسوس کرتے ہیں کہ بارش ہونی چاہیے تو وہ اس شخص سے بارش کی دعا کا مطالبہ کرتے ہیں جو ایک مخصوص درخت کے کچھ حصے کاٹ کر اسے چباتا ہے پھر اسے مٹی میں ملا کر اپنے جسم میں مل لیتا ہے۔اس عمل سے بارش برسنے کی امید ہو جاتی ہے۔