اسلام آباد (نیوزڈیسک)امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو آسانی سے یاداشت میں محفوظ رہ جاتے ہیں جبکہ اکثر ایسا نہیں ہوتا۔امریکہ کی میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ایک الگورتھم تیار کیا ہے جو اس بات کی پیشگوئی کرتا ہے کہ کوئی چہرہ کس حد تک یاداشت میں نقش ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درحقیقت تصویروں کے ذریعے دماغ طے کرتا ہے کہ اس چہرے یا تصویر کو یاداشت میں محفوظ کرنا چاہئے یا نہیں۔ اسی مفروضے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایم آئی ٹی کمپیوٹر سائنس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری کے ماہرین نے ’میم نیٹ‘ نامی الگورتھم تیار کیا ہے جو کسی تصویر کو دیکھ کر اس کے یاداشت میں ہونے کی پیشگوئی بالکل انسانی دماغ کے مطابق کرتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ لوگ تصاویر کو یاد اور بھولنے دونوں کے عادی ہوتے ہیں، چاہے وہ مختلف پس منظر اور تجربات کے حامل کیوں نہ ہو مگر ہمارے دماغ یکساں انداز میں ہی چہروں کو یاد رکھنے کے عادی ہیں۔ ایم آئی ٹی کے مطابق یہ الگورتھم اس وقت موجوددیگر سافٹ ویئرز کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ بہتر کام کررہا ہے اور اس میں تصویر کے چہرے کو یاد رکھنے کے حوالے سے مختلف اسکورز دیئے جاتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگریہ سمجھا جا سکے کہ انسانی یاداشت کیسے کام کرتی ہے اورکس طرح کی تصاویر اس میں نقش ہو کر رہ جاتی ہے تو اس معلومات کو تعلیمی میدان میں لاکر اسباق کو یاد رکھنا آسان بناسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان کا بنایا گیا سافٹ ویئر کسی حد تک یاداشت میں محفوظ ہونے والی تصاویروں کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا ہے مگر انسانی یاداشت کی مکمل رسائی کے لیے جاری ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں