بدھ‬‮ ، 12 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

امریکہ: کیلیفورنیا کے گورنر نے سان برناڈینو میں ہنگامی حالت نافذ کردی

datetime 19  دسمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاس اینجلس (نیوزڈیسک) امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر جیری براؤن نے سان برناڈینو کاؤنٹی میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے کے 17 دن بعد ہنگامی حالت (ایمرجنسی) نافذ کردی.خیال رہے کہ 2 دسمبر کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں معذوروں کے سینٹر میں فائرنگ سے 14 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوگئے تھے۔سان برنارڈینو میں سرکاری ملازمین کی ایک پارٹی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا.خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا ہے تاکہ ریاست کی جانب سے کاؤنٹی کے محکمہ صحت کے لیے فنڈز مختص ہوجائیں تاکہ کاؤنٹی اپنے اسٹاف کی تعداد کو معمول کی سطح پر لانے کے قابل ہوجائے اور ان لوگوں کو بھی ڈیتھ سرٹیفیکیٹس کی نقول جیسی چیزوں پر فیسوں سے مثتثنیٰ قرار دے دیا جائے، جنھوں نے اس واقعے میں اپنے خاندان کے کسی فرد کو کھو دیا.واضح رہے کہ قدرتی آفات کے موقع پر اس طرح کے اعلامیے ایک معمول ہیں.اپنے اعلامیے میں سان برنارڈینو کے گورنر براؤن نے واقعے میں 26 افراد کے زخمی ہونے کا ذکر کیا جبکہ حکام کی جانب سے صرف 22 زخمیوں کا ذکر کیا گیا تھا.پولیس نے سان برنارڈینو فائرنگ میں ملوث دو مشتبہ افراد 28 سالہ رضوان فاروق اور ان کی 27 سالہ اہلیہ تاشفین ملک کو کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ہلاک کردیا تھا۔بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ رضوان فاروق امریکی شہری تھے، وہ ماحولیاتی ماہر اور سان برنارڈینو کاؤنٹی میں ہی سرکاری ملازم تھے، جبکہ تاشفین ملک ’کے۔ ون‘ ویزے پر امریکا آئیں، جنھیں ویزا پاکستان سے جاری کیا گیا۔ابتداء میں فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف بی آئی) کی تحقیقات میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ دونوں میاں بیوی شدت پسندی کی جانب مائل تھے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے شدت پسندوں سے رابطے بھی تھے۔تاہم بعد ازاں بتایا گیا کہ ایف بی آئی کو کیلی فورنیا فائرنگ کے واقعے میں ملوث رضوان فاروق اور تاشفین ملک کے کسی منظم دہشت گرد گروپ سے تعلق کے ثبوت نہیں ملے.ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی نے نیویارک میں انسداد دہشت گردی کانفرنس کے دوران بتایا کہ قاتل جوڑے نے کھلے عام نہیں بلکہ نجی پیغاموں کے ذریعے جہاد اور شہادت کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں میاں بیوی دہشت گردوں سے متاثر تھے لیکن ان کی ٹیم کا حصہ نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے یہ کارروائی داعش کی ہدایت کے تحت کی۔جیمز کومی نے مزید کہا کہ شام و عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کے جنگجو حملے کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر رہے ہیں جس کے باعث سیکیورٹی تنظیموں کو ایک نئے قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)


یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…