لندن(نیوز ڈیسک)گوانتانامو میں قید آخری برطانوی شہری نے کہا ہے کہ وہ اپنی قید کے متعلق حکومت کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔بی بی سی کے ایک پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے گوانتانامو میں قید سے رہائی پانے والے برطانوی شہری شاکر عامر نے امریکی جیل اور افغانستان میں حراست کے دوران پیش آنے والی عقوبتوں کا ذکر کیا جو ان کے مطابق انھیں دی گئیں۔انھوں نے کہا کہ ایک بار جب ان کی پٹائی کی جا رہی تھی اس وقت وہاں ایک برطانوی اہلکار موجود تھا۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی کو بھی اس معاملے پر مقدمات میں نہیں دیکھنا چاہتے۔48 سالہ عامر نے 14 سال بعد اپنے اہل خانہ سے ملنے کی خوشی کے بارے میں بھی بات کی۔ انھوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ برطانوی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اس سے قبل سنڈے میل اخبار سے بات کرتے ہوئے شاکر عامر نے فوسیلیئر لی رگبی کے قاتلوں جیسے انتہا پسندوں کی مذمت کی اور کہا کہ انھیں ’ملک سے باہر جہنم رسید کر دیا جائے۔‘عامر کو افغانستان پر امریکی حملے کے کچھ عرصہ بعد سنہ 2001 میں تاوان کے لیے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد انھیں امریکیوں نے پکڑ کر سنہ 2002 میں کیوبا میں قائم امریکی فوجی اڈے کے لیے روانہ کر دیا گیا تھا۔
امریکی انٹلیجنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کے ساتھ کام کرتے تھے لیکن شاکر عامر کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں رفاہ عامہ کے کاموں میں تعاون کے لیے افغانستان گئے تھے۔ ان پر کبھی بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور سنہ 2007 میں ان سے سارے الزامات ہٹا لیے گئے۔القاعدہ سے تعلق کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا اس سے ’ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ثابت کریں۔ آپ جو کہہ رہے ہیں اگر درست ہے تو ثابت کریں۔ دنیا کے سامنے پیش کریں۔‘اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی ہونے کے الزام پر سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ’کب؟ کہاں؟ شواہد کہاں ہیں؟‘انھوں نے مزید کہا ’کوئی بھی الزام درست نہیں ہے۔‘عامر نے بتایا کہ امریکہ کے حوالے کیے جانے سے پہلے انھیں شمالی اتحاد نے پکڑا تھا۔ خیال رہے کہ شمالی اتحاد طالبان کے خلاف برسرپیکار اتحاد ہے۔انھوں نے کہا کہ افغان چاہتے تھے کہ وہ یہ تسلیم کرلیں کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کے ساتھ کام کیا ہے اور انھوں نے ’تشدد کے بعد اسے تسلیم کیا تھا‘ اور ان لوگوں نے اس کی فلم بنائی تھی لیکن یہ قطعی طور پر درست نہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ کئی وجوہات کی بنا پر تلافی یا ہرجانے کی بات نہیں کریں گے کیونکہ اس کی اہمیت نہیں ہے۔شاکر عامر نے کہا: ’میں کسی پر بھی مقدمہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ کسی سے یہ پوچھا جائیکہ ماضی میں اس کا کیا کردار تھا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ لوگ سچ بات کہیں۔‘انھوں نے کہا: ’میرے خیال میں ماضی میں کیے ہوئے کاموں پر عدالت انصاف فراہم نہیں کر سکتی۔‘سعودی عرب میں پیدا ہونے والے عامر نے کو اکتوبر کے مہینے میں برطانیہ لایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں یہ خدشہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے اجنبی ہو جائیں کیونکہ ان میں سے ایک اس وقت پیدا ہوا تھا جس دن وہ گوانتانامو پہنچے تھے۔انھوں نے بتایا: ’انھوں نے مجھے دیکھا اور یہ اندازہ لگانے لگے کہ یہ شخص کون ہو سکتا ہے؟ ان کی آنکھوں سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی اجنبی کو دیکھ رہے ہیں۔‘
انٹرویو کے درمیان انھوں نے بتایا کہ کس طرح افغانستان میں ایک پوچھ گچھ کرنے والے نے انھیں دھمکایا تھا کہ ان کی پانچ سالہ بیٹی کا ریپ کیا جائے گا۔’انھوں نے مجھے سے کہا تمہاری بیوی اور بیٹی ہمارے قبضے میں ہیں اور اگر تم بات نہیں کرتے تو ہم تمہاری بیٹی کا ریپ کریں گے اور تم اس کی چیخ سنوگے۔ ڈیڈی، ڈیڈی۔’یہ غیر انسانی سلوک تھا۔ یہ مارنے پیٹنے سے زیادہ برا تھا۔ کسی بھی چیز سے برا تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں میں صرف اپنی بیٹی کے بارے میں سوچ رہا تھا اور بالکل خاموش تھا۔‘کیا پوچھ گچھ کے دوران کوئی برطانوی افسر بھی موجود تھا؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا: ’80 سے 90 فی صد تک تھا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ انگریز تھا کیونکہ جس طرح وہ بات کر رہا تھا، جس طرح وہ احتیاط برت رہا تھا، اور جس طرح وہ دور بیٹھا مجھے دیکھ رہا تھا۔‘