اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حالیہ چند مہینے شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کے سخت بھاری ثابت ہوئے ہیں۔ ایران کے ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام کے اللاذقیہ اور حلب شہروں میں مزید گیارہ فوجی افسر اور سپاہی ہلاک ہو گئے ہیں۔ باغیوں کے حملوں میں بشارالاسد پر جان فدا کرنے والوں میں جنرل کے عہدے کے افسر بھی شامل ہیں جن میں نیول چیف میجر جنرل ستار محمودی کا نام بھی بتایا جا رہا ہے۔ایرانی خبر رساں ایجنسی”تسنیم“ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میجر جنرل ستار محمودی مغربی شام کے اللاذقیہ شہر میں حکومت نواز فورسز کی عسکری رہ نمائی پر مامور تھے۔ وہ پاسداران انقلاب کے بوشھر کے علاقے کے سربراہ بھی تھے۔ ماضی میں وہ ایران کے پانچویں بحری بیڑے کے کمانڈر کے طورپر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ انہیں عسکری امور مہارت کی بدولت شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے والے جنگجوﺅں کی تربیت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ادھر ایران کی ایک دوسری خبر رساں ایجنسی ”فارس“ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاسداران انقلاب کے ”کربلا“ بریگیڈ کے سربراہ جنرل محمد حسین بابائی کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حب میں سوموار کے روز ایران کے چار افسر ہلاک ہو گئے ان کی شناخت مصطفیٰ محرم علی مرادخانی، مصطفیٰ شیخ الاسلامی، روح اللہ صحرائی اور عبدالرحیم فیروز آبادی کے نام سے کی گئی ہے۔ایرانی پریس کے مطابق پاسداران انقلاب کی ایلیٹ فورس سے سربراہ جنرل حبیب روحی کو بھی حلب میں قتل کر دیا گیا ہے۔ جنرل روحی ایران کے ضلع کیلان کے شوکام قصبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک شیعہ مبلغ سید اصغر جرغندی اور احسان فتحی بھی ہلاک ہو گئے۔ یہ دونوں پاسداران انقلاب کے مجتبیٰ بریگیڈ میں شامل تھے۔رواں ہفتے کے دوران ایران کے ضلع فارس سے تعلق رکھنے والے بحریہ کے ایک سینیر افسر علی رضا قلی بور کو تہران میں سپرد خاک کیا گیا۔خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق فاطمیون بریگیڈ سے وابستہ ایک کم عمر افغان جنگجو مہدی احمدی بھی شام میں باغیوں سے جھڑپ میں مارا گیا ہے۔ مہدی احمدی کی عمر 17 برس بتائی جاتی ہے۔ شام میں ایران کی طرف سے بھیجے گئے اجرتی قاتلوں میں کسی کم عمر افغان جنگجو کی ہلاکت کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔خیال رہے کہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پچھلے چند برسوں کے دوران شام میں ایرانی فوج کے 500 افسر اور سپاہی صدر بشارالاسد کی حمایت میں لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ ان میں 40 سینیر افسر اور جنرل کے عہدے کے افسر بھی شامل ہیں۔