طرابلس(نیوز ڈیسک ) جب سنہ 2011 میں معمر قذافی کا تختہ الٹا گیا تھا تو لیبیا کی سڑکوں پر لوگ خوشیاں مناتے دیکھے گئے تھے، لیکن بی بی سی کے نامہ نگار جیک والس سمنز کو ان لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے گھانا کے دور دراز علاقوں میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی جوتختہ دار پر لٹکا دیے جانے والے اس رہنما کو نہ صرف اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں بلکہ اپنے رہنما کی موت پر ابھی تک سوگوار بھی ہیں۔ چند ہی دن پہلے جب میں گھانا کے دارالحکومت اکرا کی پیلی دھول، دھوپ اور گاڑیوں کے دھویں اور گرد وغبار کے درمیان ایک سڑک پر جاتے ہوئے ایک شخص سے ملا جس کا کہنا تھا کہ معمر قذافی ایک مسیحا تھے۔ یہ بات کہنے والے شخص کا نام کریم محمود تھا۔ کریم ایک 47 سالہ پرجوش آدمی ہیں جو قذافی کا تختہ الٹے جانے سے پہلے تین سال لیبیا میں رہ چکے ہیں اور کام بھی کر چکے ہیں۔ اس وقت بھی کریم محمود شادی شدہ تھے، ان کے تین بچے تھے اور وہ لیبیا میں ایک ایسے مکام میں رہ رہے تھے جو انھوں نے خود اس رقم سے تعمیر کیا تھا جو انھوں نے لبیا میں کمائی تھی۔ کریم کے بقول ’ ان دنوں لیبیا میں ہر کوئی خوش تھا۔ امریکہ میں آج بھی لوگ پ±لوں کے نیچے سوتے ہیں، لبیا میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ لیبیا میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا تھا، وہاں کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ ہر کسی کو کام مل جاتا تھا اور معاوضہ بھی اچھا ملتا تھا۔ میری زندگی میں جو کچھ بھی اچھا ہے وہ قذافی کی ہی وجہ سے ہے۔ قذافی افریقہ کے مسیحا تھے۔‘ گھانا میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنے والے کریم محمود اکیلے نہیں ہیں۔ جب میں اور کریم سڑک پر کھڑے بات کر رہے تھے تو وہاں پر ٹہلتے ہوئے دو اور افراد بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو گئے اور کریم محمود کی طرح وہ دونوں بھی لبیا کے سابق آمر کے بارے میں بڑے پرجوش انداز میں بات کر رہے تھے۔ سات سال تک لیبیا میں ملازمت کرنے والے 35 سالہ ہنس م±کھ مزدور مصطفٰے عبدالمومن کے بقول ’قذافی نے کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔ ہر لحاظ سے مکمل حکمران تھے۔ وہ بہترین حکمران تھے۔‘ گفتگو میں شامل ہونے والے تیسرے صاحب الیاس یحیٰ تھے جو مقامی مسجد کے امام تھے۔ نوکدار داڑھی رکھے ہوئے، گول ہیٹ پہنے ہوئے اور نہایت بلند آواز میں بات کرنے والے الیاس یحیٰ کا کہنا تھا کہ ’آپ کسی مسئلے کو ختم کرنے کے لیے ایک شخص کو مار دیتے ہیں، کیا اس سے مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔ آج لیبیا میں بڑا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔ آخر قذافی کو مارنے کی ضرورت کیا تھی۔‘ قطع نظر اس بات کے کہ قذافی ایک بے رحم آمر تھے، ان کے اقتدار کے طویل برسوں میں دولت کی فراوانی اور استحکام ان لوگوں کے لیے کسی غنیمت سے کم نہیں تھے جو لیبیا میں کام کر کے پیسہ بنانے کے لیے بے چین تھے۔ اکرا کی سڑک پر بننے والے میرے نئے دوستوں کا شمار بھی افریقہ کے ان ہزاروں لوگوں میں ہوتا ہے جو لیبیا میں کمائی کر کے غربت کے گھن چکر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ہم لوگ جب سبزی کی ایک چھوٹی سی دکان کے سائبان کے نیچے کھڑے باتیں کر رہے تھے تو لیبیا سے کمائے ہوئے پیسے کے تبوت ہمیں ہر جگہ دکھائی دے رہے تھے۔ یہ گھانا کا وہ شمالی علاقہ ہے جہاں کے لوگوں نے قذافی کے دور میں خوب دولت کمائی۔ جس قسم کے ٹوٹے پھوٹے مکان آپ کو اکرا کے دیگر محلوں اور علاقوں میں دکھائی دیتے ہیں، ویسےگھر آپ کو یہاں بالکل دکھائی نہیں دیتے۔ اکرا کے مخصوص کچے مکانوں کی بجائے یہاں آپ کو گلابی مٹی کی کچی سڑک کے کنارے دور دور تک جدید اور کشادہ گھر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سڑک کے موڑ پر ایک عالیشان عمارت، جو کہ میرے خیال میں شہر کا مرکزی ہال تھا، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کریم نے مجھے بتایا کہ اصل میں یہ عمارت ایک مقامی شخص شیخ سوالا کی ملکیت ہے۔ کریم کے مطابق شیخ سوالا نے لیبیا کی کمائی سے کئی قسم کے کاروبار شروع کیے اور خوب دولت بنائی۔ کریم کے بقول اس عالیشان رہائشی عمارت میں تیس کمرے تھے اور اگر قذافی نہ ہوتے تو شیخ سوالا اتنی بڑی عمارت کبھی بھی تعمیر نہ کر سکتے۔ کریم کی بات بالکل درست تھی، کیونکہ ان دنوں اکرا کے اس علاقے میں نئی عمارتوں کی تعمیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آپ کو یہاں وہاں ایسے کئی مکانات دکھائی دیتے ہیں جو ادھورے پڑے ہیں اور ان کی تعمیر رک چکی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ جب قدافی کا تختہ الٹ دیا گیا تو گھانا کا یہ علاقہ منجمد ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد 36 سالہ عمادو بھی ہماری گفتگو میں شامل ہوگئے۔ شروع میں ہم میں سے کسی کا دھیان عمادو کی جانب نہیں گیا کیونکہ وہ ہم لوگوں سے ذرا ہٹ کے کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن آخر کار انھوں نے بھی ہمیں اپنی کہانی سنانے کا فیصلہ کر لیا۔ عمادو کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو لبیا میں ملازمت کا ویزا حاصل نہیں کر سکے تھے۔ چانچہ سنہ 2010 میں عمادو اور ان کے کئی دوستوں نے صحرا کے خطرناک راستے سے لیبیا جانے کا فیصلہ کر لیا۔ راستے میں ان کے پاس پینے کا پانی ختم ہو گیا اور ان کے گروہ کے کئی لوگ صحرا میں ہی مر گئے، تاہم عمادو خود لیبیا پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں انھیں ٹائلیں لگانے کا کام بھی مل گیا۔ سنہ 2011 میں جب لیبیا میں جنگ شروع ہوئی، اس وقت تک عمادو 3,500 امریکی ڈالروں کے برابر پیسے کما چکے تھے۔ عمادو کو یاد ہے کہ جب طرابلس میں پہلی گولی چلی تو وہ طرابلس کے ساحل پر کھڑے تھے۔ انھیں بھاگ کر جان بچانا پڑی اور وہ وہاں چھپ گئے۔ ہر طرف فائرنگ کی وجہ سے عمادو کئی دنوں تک ایک کمرے سے باہر نہیں نکل پائے اور پھر آخر کئی دنوں بعد وہ بھاگ کر واپس گھانا پہنچ گئے۔ اگرچہ وہ جان بچا کر واپس گھر تو آ گئے لیکن ان کے کمائے ہوئے پیسے لبیا میں ہی رہ گئے اور یوں عمادو کا اپنی غربت دور کرنے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ مصطفےٰ کے بقول یہاں گھانا میں جوان لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ’قذافی کے بعد ہماری زندگی بہت مشکلات میں گھِر گئی ہے۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور ہمارے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ اب پیسہ کمانے کے دو ہی راستے ہیں، یا تو ہم ج±رم کی دنیا میں چلے جائیں اور یا کسی طرح یورپ پہنچنے کی کوشش کریں۔‘ وہاں موجود دیگر افراد نے بھی عمادو کی بات سے اتفاق کیا۔ الیاس نے بڑی بلند آواز میں کہا کہ ’اب صرف یورپ، یورپ اور یورپ ہی حل ہے۔ آپ زمین پر کہیں بھی چلے جائیں، ہر کوئی یورپ یورپ ہی کر رہا ہے۔‘ ’جن کے پاس وسائل ہیں ان میں سے اگرچہ کچھ لوگ برازیل بھی جا رہے ہیں، لیکن باقی تمام لوگوں کی منزل یورپ ہی ہے۔‘ اپنا تختہ الٹے جانے سے پہلے معمر قذافی نے یورپی یونین کو سرکاری طور پر خبردار کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے تو کم از کم دس لاکھ تارکین وطن یورپی ساحلوں پر پہنچ جائیں گے اور یہ لوگ اتنا اودھم مچائیں گے کہ یورپ کے لیے انھیں قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ قذافی کوئی بڑے مسیحا نہیں بلکہ ایک بڑے آمر ہی تھے، لیکن حالات یہی بتاتے ہیں کہ انھوں نے یورپ کو جس بات سے خبردار کیا تھا وہ اب درست ہی ثابت ہو رہی ہے۔